انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تبوک میں پیچھے رہ جانے والے حضور اکرم ﷺ جب تبوک تشریف لے جارہے تھے تو منافقین کا ایک گروہ آپﷺ کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا اور پیچھے رہ گیا تھا، اسی طرح تین مسلمان یعنی کعب ؓ بن مالک، مرارہؓ بن ربیع اور ہلالؓ بن اُمیہ بھی پیچھے رہ گئے تھے اور آپﷺ کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے مگر ان کے اسلام میں کوئی شک نہ تھا نہ ان میں نفاق کا شائبہ تھا، مدینہ واپس ہونے کے بعد رسول اکرم ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا! " ان تینوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی تم کلام نہ کرنا" حضرت کعبؓ بن مالک فرماتے ہیں کہاایک مرتبہ ایک نبطی جو شام کے علاقہ کا تھا انہیں شاہِ غسّان کا ایک خط لاکر دیا جس میں لکھا تھا …" امابعد! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ساتھی (نبی کریمﷺ) نے سرد مہری کی ہے اور اﷲ نے تمہیں ذلت و تباہی کی جگہ نہیں رکھا، اس لئے تم یہاں آکر مجھ سے ملو، میں تمہارے لئے معاش اور روزی میں حصہ رسدی کا انتظام کروں گا" حضرت کعبؓ گو معتوب نبوی تھے مگر انھوں نے اس خط کو تنور میں ڈال دیا، حضرت کعبؓ آگے فرماتے ہیں…’‘ جب پچاس راتوں میں سے چالیس گذر گئیں تو حضور اکرم ﷺ کا قاصد ان کے پاس آیا اور کہا حضور اکرم ﷺ تمہیں اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیوی سے علحٰدگی اختیار کرلو، انہوں نے پوچھا کیا بیوی کو طلاق دے دوں؟ کہا … نہیں بلکہ اس سے الگ رہو اور اس کے قریب مت جاؤ، (ابن ہشام) حضور ﷺ کے قاصد نے ان کے دونوں ساتھیوں مرارہؓ بن ربیع اورہلا ل بن اُمیہ کو بھی یہی پیغام پہنچایا، حضور اکرم ﷺ کے حکم کے مطابق تمام لوگوں نے ان تین صحابہؓ کے ساتھ سلام و کلام کے علاوہ ان کے ہاتھوں خرید و فروخت ترک کر دی تھی، جب اس مقاطعہ کو پچاس دن مکمل ہوئے تو اﷲ تعالیٰ نے رحم فرماکر ان کو معاف کردیا اور ان کی توبہ قبول فرمائی، سورۂ توبہ کی آیت ۱۱۸ نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا : (ترجمہ) " اور ان تین شخصوں پر بھی (مہربانی کی) جن کا معاملہ ملتوی رکھا گیا تھا یہاں تک کہ زمین باوجود اس قدر وسیع ہونے کے ان پر تنگ ہوگئی اور وہ خود بھی اپنی جان سے تنگ ہوگئے اور انھوں نے سمجھ لیا کہ اﷲ کی گرفت سے انھیں کہیں پناہ نہیں مل سکتی مگر یہ کہ اسی کی طرف رجوع کیاجائے، پھر اﷲ نے ان پر مہربانی کی تاکہ وہ توبہ کریں، بلاشبہ اﷲ ہی توبہ قبول کرنے والا(اور) مہربان ہے. (سورۂ توبہ :۱۱۸) اس حکم کے نازل ہونے کے بعد تینوں صحابہ کرامؓ بے حد خوش ہوئے ، لوگوں نے آکر انھیں بشارت دی ،جو لوگ معذوری کی وجہ سے غزوہ میں شرکت نہ کرسکے تھے ان کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے ارشار فرمایا : ( جہاد میں نہ جانے کا ) نہ تو ضعیفوں پر کچھ گناہ ہے اور نہ بیماروں پر اور نہ ان پر جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں جبکہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خیرخواہ ہیں،اور نہ ان لوگوں پر ( کسی طرح کا الزام ہے ) جو کہ تمہارے پاس آئے کہ تم ان کو سواری دو (اور ) تم نے کہا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے کہ تم کو سوار کروں تو اس حال میں وہ لوٹ گئے کہ غم سے کہ ان کے پاس اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو کچھ نہ تھا ، ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے " . ( سورہ توبہ :۹۲)