انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فضیل بن یاض تبع تابعین میں جن بزرگوں کا زہد واتقاء ضرب المثل تھا، ان میں فضیل بن عیاض بھی تھے، علم وفضل کے لحاظ سے بھی معاصرین میں یہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے؛ مگردلوں میں ان کی فضیلت اور عظم ت وجلالت ان کے زہدواتقاء ہی کی وجہ سے تھی، ان کی زندگی توبۂ وانابت الی اللہ کی صحیح تصویر تھی۔ خاندان ان کا خاندان صوبہ خراسان کی ایک بستی طالقان کا رہنے والا تھا، جو بعد میں فندین میں آباد ہوگیا تھا اس فندین کے قریب ایک بستی ابیورد تھی وہیں ان کی ولادت ہوئی۔ (ابنِ خلکان:۲/۱۵۸) ابتدائی حالات فضیل گوایک آزاد مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے مگران کوسازگار ماحول نہیں ملا، جس کی وجہ سے ان کی عادتیں بگڑگئیں اور کچھ دنوں میں وہ ایک مشہور ڈاکو کی حیثیت سے مشہور ہوئے ان کی ڈاکہ زنی کا اتنا چرچا تھا کہ خراسان کے آس پاس سے قافلے گذرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ توبہ ان کی زندگی کے یہی لیل ونہار تھے کہ یکا یک فضل ایزدی نے ان کا دامن پکڑا اور ان کوتوبہ کی توفیق نصیب ہوئی، ان کے توبہ کی داستان میں کتنوں کے لیے سامان بصیرت ہے، ان کوکسی لڑکی سے عشق ہوگیا تھا؛ مگرخواہش نفس کی تکمیل کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہورہی تھی، ایک دن موقع پاکر اس کے گھر کی دیوار پھاند کراندر داخل ہونا چاہتے تھے کہ کسی خدا کے بندے نے یہ آیت تلاوت کی: أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آَمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَانَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَايَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ۔ (الحدید:۱۶) ترجمہ: جولوگ ایمان لے آئے ہیں، کیا اُن کے لیے اب بھی وقت نہیں آیا کہ اُن کے دِل اللہ کے ذِکر کے لیے اور جوحق اُترا ہے اُس کے لیے پسیج جائیں؟ اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ بنیں جن کوپہلے کتاب دی گئی تھی؛ پھراُن پرایک لمبی مدت گذرگئی اور اُن کے دِل سخت ہوگئے اور (آج) اُن میں سے بہت سے نافرمان ہیں؟ (توضیح القرآن:۳/۱۶۷۸، مفتی محمدتقی عثمانی، مطبوعہ:فرید بکڈپو، دہلی) کلامِ الہٰی کی یہ دل گداز آواز ان کے کانوں میں پہنچی اور کانوں کے ذریعہ دل میں اُترگئی، ایمان کی دبی ہوئی چنگاریاں بھڑک اُٹھیں، بے اختیار بول اُٹھے، یارب آں، اے پروردگار وہ وقت آگیا، کہ میں بحر معاصی سے نکل کرتیرے دامنِ رحمت میں پناہ لوں، وہاں سے وہ اسی وقت واپس ہوئے، رات کا وقت تھا، اس لیے ایک خرابہ میں ٹھہرگئے، پاس ہی کوئی قافلہ پڑاؤ ڈالے پڑا تھا، اہلِ قافلہ آپس میں مشورہ کررہے تھے کہ کب رختِ سفرباندھا جائے، بعضوں کا خیال تھا کہ کہ اسی وقت چل دینا چاہیے؛ مگراہلِ تجربہ نے رائے دی کہ صبح سے پہلے سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے؛ اسی راستہ پرفضیل قافلوں پرڈاکے ڈالتا ہے، فضیل کا بیان ہے کہ میں نے دل میں سوچا کہ میں رات بھرمعاصی میں غرق رہتا ہوں اور بندگانِ خدا مجھ سے ڈرتے ہیں؛ حالانکہ خدا نے ان کے درمیان مجھے اس لیے نہیں بھیجا ہے؛ پھرصدقِ دل سے توبہ کی اور یہ دُعاکی: أَللَّهُمَّ إِنِّيْ قَدْ تَبَّتْ إِلَيْكَ وَجَعَلْتُ تَوْبتَي مجاورة البيت الحرام۔ (تہذیب التہذیب:۸/۲۶۵، شاملہ، المؤلف: ابن حجر العسقلاني،مصدر الكتاب: موقع يعسوب۔ دیگرمطبوعہ:۸/۲۹۵) ترجمہ: اے پروردگار! میں تیری طرف پلٹتا ہوں اور اس توبہ کے بعد اپنی زندگی کوتیرے گھر کی خدمت کے لیے مخصوص کرتا ہوں۔ اس توبہ نصوح کے بعد ان کوعلم دین کی تحصیل کا شوق دامن گیر ہوا اور اسی شوق میں وہ ترکِ وطن کرکے کوفہ آئے؛ یہاں امام اعمش شیخ منصور اور بعض دوسرے ائمہ حدیث سے اکتساب فیض کیا؛ پھرحسب وعدہ جوارِ حرم کواپنا مسکن بنایا اور پھراسی کے سایہ میں پوری زندگی بسر کردی۔ (ابن خلکان:۲/۱۵۸) علمی مقام پچھلی زندگی کا ان پرکچھ ایسا ردعمل ہوا تھا کہ وہ گوشہ گیر ہوکر یک گونہ دنیا سے بے تعلق ہوگئے تھے، عام طور پرمحدثین ایسے زاہدوں اور گوشہ گیروں کوکوئی علمی مقام نہیں دیتے تھے اور نہ ان کی روایتوں کوقبول کرتے تھے؛ مگرفضیل بن عیاض کی ذات اس سے مستثنیٰ تھی، ان کی روایتوں کوعام محدثین نے قبول کیا ہے اور خود بھی ان سے روایت کی ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ فضیل بن عیاض کی زہدپسندی نے انہیں حصولِ علم دین سے بے نیاز نہیں کردیا تھا، توبہ کے بعد گوان کی عمر کافی ہوچکی تھی؛ لیکن وہ اس کے باوجود کوفہ پہنچے اور وہاں ممتاز شیوخ حدیث وفقہ سے استفادہ کیا۔ (البدایہ والنہایہ:۱/۱۹۸۔ تہذیب الاسماء، نووی:۲/۵۱) ان کے ممتاز شیوخ فقہ وحدیث یہ ہیں: امام اعمش، سلیمان التیمی، منصور بن معتمر، حمیدالطویل، یحییٰ بن سعید الانصاری، محمد بن اسحاق، جعفر بن محمد الصادق، اسماعیل بن خالد،سفیان ثوری رحمہم اللہ وغیرہ۔ (البدایہ والنہایہ:۱/۱۹۸۔ تہذیب الاسماء نووی:۲/۱۵۱۔ تہذیب التہذیب:۸/۲۹۴) فقہ میں خاص طور پرانہوں نے فقہ کے سب سے مزتاز ائمہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام محمد بن ابی لیلیً سے استفادہ کیا تھا۔ (الجواہر المضیہ:۱/۴۰۹) زہدواتقاء میں ان سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد کا حصر توناممکن ہے؛ مگرجن لوگوں نے زہدواتقاء کے ساتھ ان سے علمی استفادہ کیا تھا، ان کی تعداد بھی کم نہیں ہے، سفیان ثوری رحمہ اللہ گوان کے شیوخ میں ہیں؛ مگرخود انہوں نے بھی ان سے روایت کی ہے؛ اُسی طرح سفیان بن عیینہ، ابن مبارک اور امام شافعی رحمہم اللہ ان کے تلامذہ میں ہیں، ان کے علاوہ یحییٰ بن سعید القطان، ابن مہدی، عبدالرزاق حمیدی، ابن وہب، اصمعی، یحییٰ بن یحییٰ التیمی وغیرہ نے ان سے استفادہ کیا تھا۔ روایت حدیث میں احتیاط تمام محدثین نے ان کے علم وفضل کا اعتراف کیا ہے، ان کی روایتیں قبول کی ہیں؛ لیکن اس کے باوجود تحدیث روایت سے حتی الامکان گریز کرتے تھے، امام نووی نے لکھا ہے کہ وہ حدیث نبوی سے سخت خائف رہتے تھے اور اس کی روایت ان پربہت گراں گذرتی تھی۔ (تہذیب الأسماء:۲/۵۱) خاص طور پر کسی غیرمحدث سے حدیث کی روایت کوتوپسند ہی نہیں کرتے تھے، ایک بار کسی نے اُن سے کہا کہ آپ جعفر بن یحییٰ سے روایت نہیں کرتے، فوراً بولے کہ میں حدیث نبویﷺ کواس سے بلند سمجھتا ہوں کہ اس کی روایت ابن یحییٰ سے کی جائے۔ (تہذیب الاسماء:۲/۵۱) فرماتے تھے کہ اگرکوئی مجھ سے درہم ودینار مانگ لے تویہ میرے لیے آسان ہے؛ مگرمجھ سے تحدیث کی فرمائش نہ کرے۔ (الجواہرالمضیہ:۱/۴۰۹) محدثین کا اعتراف ان کے علوم وفضل کی زیادہ تفصیل تذکروں میں نہیں ملتی، ابن جوزی رحمہ اللہ نے ان کے حالات میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے؛ اگروہ مل جاتی توالبتہ ان کے بارے میں کافی معلومات ملتیں؛ لیکن ممتاز ائمہ حدیث وفقہ نے ان کے بارے میں جورائے دی ہے، اس سے کسی حد تک ان کے علم وفضل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، سفیان بن عیینہ نے ان کوثقہ قرار دیا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۸/۲۹۵) قاضی شریک نے ان کوحجت کہا ہے، ابن ناصر الدین نے امام الحرم، شیخ الاسلام قدوۃ الاعلام وغیرہ کے الفاظ سے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ (شذرات الذہب:۱/۳۱۷) دارِقطنی اور نسائی نے ثقہ اور ابوحاتم نے صدوق کہا ہے، ابن سعد نے ان کوثقہ، فاضل، متقی اور کثیرالحدیث بتایا ہے، امام نوویؒ نے لکھا ہے کہ ان کی توثیق پرتمام ائمہ کا اتفاق ہے، وہ صحیح الحدیث اور صدوق اللسان تھے، ان کی روایتیں صحیح اور سچی ہوتی تھیں۔ (تہذیب التہذیب۔ تہذیب الاسماء:۲/۵۲) اُن کے علم وفضل کی توثیق کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ان سے سفیان ثوری، یحییٰ بن سعید القطان، امام بخاری، امام مسلم رحمہم اللہ جیسے ائمہ حدیث نے روایت کی ہے، بعض محدثین ان کی روایت کے قبول کرنے میں کچھ تامل بھی کرتے تھے؛ مگران کی تعداد بہت کم ہے۔ زہدواتقاء ان کے صحیفۂ زندگی کا سب سے تابناک باب یہی ہے کہ ابن مبارک جن کا زہدواتقاء خود ضرب المثل تھا، وہ فرماتے ہیں کہ فضیل اس زمانہ کے سب سے متقی آدمی تھے، دوسری روایت ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ میرے نزدیک زمین پراس وقت ان سے زیادہ افضل آدمی کوئی دوسرا نہیں ہے۔ (تہذیب التہذیب:۸/۱۹۵) خلیفہ وقت ہارون رشید کہا کرتے تھے کہ علماء میں امام مالک سے زیادہ بارعب اور فضیل بن عیاض سے زیادہ متقی آدمی میں نے نہیں دیکھا، ہارون نے جوکچھ کہا تھا وہ سنی سنائی بات نہیں تھی؛ بلکہ خود اس کا ذاتی تجربہ تھا۔ فضل بن ربیع کا بیان ہے کہ امیرالمؤمنین ہارون رشید حج کے لیے نکلے تووہ مجھ سے بھی ملنے آئے میں نے سنا کہ امیرالمؤمنین آئے ہیں توتیزی سے اُن کے پاس آیا اور عرض کیا آپ مجھ ہی کوطلب کرلیتے میں خود حاضر ہوجاتا؛ انہوں نے کہا کہ میرے دل میں کچھ خلش ہے، کسی ایسے آدمی کے پاس لے چلو جس سے میں اپنی تسکین حاصل کرسکوں، فضل نے کہا یہاں سفیان بن عیینہ موجود ہیں، آپ میرے ساتھ اُن کے پاس چلیے؛ چنانچہ ہم لوگ اُن کے دروازہ پرپہنچے، دروازہ کھٹکھٹایا؛ انہوں نے اندر سے پوچھا کون؟ میں نے کہا کہ امیرالمؤمنین آپ سے ملنے آ:ے ہیں، یہ سن کروہ تیزی سے آئے اور بولے: امیرالمؤمنین! آپ نے بلالیا ہوتا میں خود حاضر ہوجاتا، ہارون رشید نے کہا کہ اچھا جس کام کے لیے ہم آئے ہیں وہ شروع کیجئے، ہارون نے اُن سے کچھ دیربات چیت کی؛ پھرپوچھا کہ آپ پرکسی کا قرض تونہیں ہے، ابن عیینہ نے اثبات میں جواب دیا، ہارون اس کی ادائیگی کا حکم دے کراُن سے رُخصت ہوا، جب باہر آیا تواس نے فضل سے کہا کہ تمہارے دوست سے مجھے تسکین نہیں ہوئی، کسی دوسرے صاحب علم کے پاس لے چلو! فضل، عبدالرزاق بن ہمام کی خدمت میں لےگئے، وہاں بھی ہارون کوتسکین نہیں ہوئی؛ پھریہ قافلہ فضیل بن عیاض کے پاس پہنچا، ابنِ عیاض اس وقت نماز میں تھے اور ایک ہی آیت کوبار بار دہرارہے تھے، غالباً جب وہ فارغ ہوگئے توان لوگوں نے دستک دی؛ انہوں نے اندر سے پوچھا کون؟ فضل نے کہا: امیرالمؤمنین آپ سے ملنے آئے ہیں، اس کے جواب میں انہوں نے بڑی بے نیازی سے فرمایا: مجھ سے امیرالمؤمنین کوملنے کی کیا ضرور ہے؟ فضل نے کہا کہ کیا آپ پراطاعت ضروری نہیں ہے، اس کے بعد ابنِ عیاض کوٹھے سے نیچے اُترے اور دروازہ کھولا، ہم لوگ ان کے پاس بیٹھ گئے؛ انہوں نے چراغ گل کردیا اوور خود ایک گوشہ میں بیٹھ گئے، اتفاق سے اندھیرے میں ہارون کا ہاتھ فضیلؒ کے بدن پرپڑگیا، فضیل بن عیاضؒ نے کہا کہ کتنا نرم ہاتھ ہے، کاش! کل یہ عذاب دوزخ سے بچ جائے، ہارون رشید نے اس کے بعد کچھ ہدایتیں کرنے کی فرمائش کی، ابنِ عیاض نے بڑے پراثر انداز میں فرمایا کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے توانہوں نے سالم بن عبداللہ، محمد بن کعب القرظی اور رجاء بن حیوٰۃ رحمہم اللہ کوبلایا اور پُردرد لہجہ میں فرمایا کہ میں اس آزمائش میں ڈال دیا گیا ہوں، آپ لوگ مجھے اس سلسلہ میں مشورہ دیجئے؛ توانہوں نے خلافت کی ذمہ داری کوبلا (آزمائش)قرار دیا اور آپ اور آپ کے اصحاب نے اس کومحض نعمت قرار دیا ہے، سالم بن عبداللہ نے عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس دنیا میں ایک روزہ دار کی طرح رہنا چاہیے، ابن کعب نے کہا کہ جومسلمان آپ سے بڑے ہیں، انہیں آپ اپنے والد کی طرح سمجھیں اور جوچھوٹے ہیں انہیں اپنا لڑکا سمجھیں توباپ کی توقیر کیجئے، بھائی کااکرام واعزاز کیجئے اور لڑکے سے پوری شفقت ومحبت سے پیش آئیے، رجاء بن جیوٰۃ بولے؛ اگرآپ کل قیامت کے دن عذاب الہٰی سے نجات چاہتے ہیں تومسلمانوں کے لیے وہی پسند کیجئے، جواپنے لیے پسند کرتے ہیں اور ان کے لیے وہ نہ پسند کیجئے جوآپ اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں، ابن عیاض نے ہارون کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دن جس دن لوگوں کے پیر اپنی جگہ سے ڈگمگا رہے ہوں گے آپ کے لی میں بہت خائف ہوں، آپ پرخدا رحم وکرم کرے کہ آپ کے قریب ایسے لوگ نہیں ہیں جوآپ کواس طرح کا مشورہ دے سکیں، یہ سن کرہارون پھوٹ پڑا اور اس پرغشی کی کیفیت طاری ہوگئی؛ پھرجب یہ کیفیت دور ہوئی توہارون نے کہا کہ آپ پرخدا رحم کرے، کچھ اور ارشاد ہو، ابن عیاض نے پھراسی انداز میں فرمایا کہ امیرالمؤمنین مجھے یہ بات معتبر طریقے سے معلوم ہوئی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے ایک عامل نے اُن کوخط کے ذریعہ اپنی کسی تکلیف کا اظہار کیا، جواب میں انہوں نے لکھا کہ میرے بھائی میں تم کواہل دوزخ کے دوزخ میں ابدالاباد تک جاگتے رہنے کی یاد دلاتا ہوں اور ڈرو کہ کہیں تم خدا کے پاس اس حالت میں واپس ہوکہ تم کوبخشش کی کوئی اُمید نہ رہ جائے، جب یہ خط اس عامل نے پڑھا توسارے کام چھوڑ کرعمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا؛ انہوں نے وجہ دریافت کی توبولا کہ آپ کا خط پڑھ کرمیں نے تہیہ کرلیا ہے کہ اب موت تک کسی ذمہ داری کوقبول نہ کرونگا، یہ سن کرہارون پرایک بار پھررقت طاری ہوگئی، تھوڑی دیر بعد پھراس نے مزید ہدایت کی خواہش ظاہر کی، ابن عیاض نے فرمایا کہ اے امیرالمؤمنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک بار خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے اور خواہش ظاہر کی کہ مجھے کسی جگہ کا امیربنادیجئےتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امارت کی ذمہ داری قیامت کے دن سراسرحسرت وندامت ہوگی، تواس کی خواہش نہ کیجئے، اس پرہارون ایک بار پھرپھوٹ پھوٹ کررویا اور مزید کچھ کہنے کی خواہش کی، آپ نے فرمایا کہ اے خوبرو چہرے والے! قیامت کے دن اپنی خلق کے بارے میں خدا تعالیٰ پورچھ گچھ کرے گا؛ اگرآپ یہ خوبصورت چہرہ آگ سے بچانا چاہتے ہوتواس طرح بچائیے کہ کبھی کسی رعیت کی طرف اپنے دل میں کوئی کھوٹ کینہ نہ رکھئیے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جوشخص لوگوں کی طرف سے کینہ اور کھوٹ رکھتا ہے، اس پرجنت کی خوشبو حرام ہے، یہ سن کرہارون پھرروپڑا، جب سکون ہوا تواس نے پوچھا کہ آپ پرکسی کا قرض تونہیں ہے؟ ابن عیاض نے فرمایا کہ ہاں! میرے رب کا قرض میرے اوپر ہے، جس کا وہ محاسبہ کرے گا، میری توہلاکت ہی ہے؛ اگراس نے مجھ سے سوال کیا، میری بربادی ہی ہے، اگراس نے پوچھ گچھ کی اور اس کا جواب اس نے کافی نہیں سمجھا، ہارون بولا میں بندوں کے قرض کے بارے میں آپ سے سوال کررہا ہوں؟ بولے میرے رب نے اس کا حکم مجھے نہیں دیا ہے، میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تنہا اسی کورب سمجھوں اور اسی کی اطاعت کروں؛ پھرقرآن کی یہ آیت پڑھی: وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلاَّلِيَعْبُدُونِo مَاأُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَاأُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِo إِنَّ اللَّهَ هُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ۔ (الذاریات:۵۶،۵۷،۵۸) ترجمہ:اور میں نے جنات اور انسانوں کواس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریںo میں اُن سے کسی قسم کا رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیںo اللہ توخود ہی رزاق ہے، مستحکم قوت والا۔ (توضیح القرآن:۳/۱۶۱۰، مفتی محمدتقی عثمانی، مطبوعہ:فرید بکڈپو، دہلی) ہارون رشید نے کہا کہ یہ ایک ہزار دینار (۱۰/ہزار روپیے سے زیادہ) حاضر ہیں، اسے قبول کیجئے اور اپنے اہل وعیال پرصرف کیجئے، بولے سبحان اللہ! میں توآپ کونجات کا راستہ بتاتا ہوں اور آپ اس شکل میں بدلہ دینے کی کوشش کرتے ہیں یہ فرمانے کے بعد بالکل خاموش ہوگئے، ہارون اپنے قافلہ کے ساتھ وہاں سے واپس ہوا اور باہرنکل کرفضل سے کہا کہ آئندہ اگر کسی کے پاس لے چلنا توانہیں جیسے آدمی کے پاس لے چلنا، یہ یہ واقعۃ سیدالمسلمین ہیں۔ (صفوۃ الصفوۃ) اس گفتگو سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوئیں: (۱)ایک یہ کہ حکومت کی ذمہ داری کوعیش وطرب کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے؛ بلکہ اسے ایک آزمائش سمجھ کراس سے عہدہ برآہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (۲)دوسری بات یہ کہ اسلامی حکومت کے حکمرانوں کی زندگی ٓٓخرت کی بازپرس اور احساسِ ذمہ داری سے خالی نہ ہونا چاہیے؛ اگراس سے ان کی زندگی خالی ہوگی تووہ کبھی عدل وانصاف نہ کرسکیں گے۔ (۳)تیسری بات یہ کہ انہوں نے اس میں مثال زیادہ ترعمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی دی جواموی خلیفہ تھے،’ جن کے بارے میں عباسی حکمران بدگمان بھی رہا کرتے تھے اور ان سے اپنے کوبرتر بھی سمجھا کرتے تھے، ابن عیاض نے مثالیں دے کران کے اس پندار کوتوڑنے کی کوشش کی، اس سے ان کی حد سے بڑھی ہوئی جرأت کا پتہ بھی چلتا ہے اور حکومت وقت سے ان کی ناراضگی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ (۴)چوتھی بات یہ کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کوامارت کے قریب جانے سے آپ نے اس لیئے منع فرمایا کہ یہ کوئی موروثی چیز نہیں ہے؛ اگرایسا ہوتا توآپ ان کویہ ذمہ داری ضرور سونپ دیتے؛ لیکن چونکہ اس کا مدار اہلیت وصلاحیت پرہے، اس لیے آپ نے اس سے ان کوروک دیا۔ حلال ذریعہ رزق وہ اکل حلال کے سلسلہ میں حددرجہ محتاط تھے؛ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے نہ توامراء وخلفاء کی مدد قبول کی اور نہ عوام کی، اپنے ہاتھ کی کمائی سے جوکچھ مل جاتا تھا وہ کھالیتے تھے، امام شعرانی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں: یسقی علی الدوام وینفق من ذالک علی نفسہٖ وعیالہٖ۔ ترجمہ: ہمیشہ بہشتی کا کام کرتے تھے اور اسی سے اپنا اور اپنے اہل وعیال کا خرچ چلاتے تھے۔ ذکرِالہٰی اور قرآن سے شغف قرآن کے ساتھ ان کوعشق تھا اور اوپر ذکر آچکا ہے کہ ہارون رشید جب ان کے پاس گیا تووہ قرآن کی ایک آیت دہرارہے تھے، خادم خاص ابراہیم بن اشعث رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ فضیل کے دلم یں خدا کی جس قدر عظمت تھی اتنی میں نے کسی کے دل میں نہیں دیکھی، ان کے سامنے جب خدا کا ذکر آجاتا یاوہ قرآن کی کوئی آیت سن لیتے تھے تو: ظهر به من الخوف والحزن وفاضت عيناه فبكى حتى يرحمه من بحضرته۔ (تہذیب التہذیب:۸/۲۶۶، شاملہ، المؤلف: ابن حجر العسقلاني،مصدر الكتاب: موقع يعسوب) ترجمہ: ان پرخوف وغم کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور اس طرح روتے تھے کہ دیکھنے والوں کورحم آنے لگتا تھا۔ احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ایک بار ہم لوگ فضیل بن عیاض کے پاس گئے اور ان سے اندر آنے کی اجازت چاہی تواجازت نہیں ملی، کسنے کہا کہ وہ اگرقرآن کی آواز سن لیں تونکل آئیں گے، ہمارے ساتھ ایک بلند آواز آدمی تھا، ہم نے اس سے کہا کہ قرآن کی کوئی آیت پڑھو اس نے بلند آواز سے سورۂ تکاثر پڑھنی شروع کردی، وہ فوراً نکل آئے، اس وقت ان کا حال یہ تھا کہ داڑھی آنسوؤں سے ترتھی وہ خود قرآن پڑھتے توان کی آواز نہایت غمگین اورپسندیدہ ہوتی اور ٹھہر ٹھہر کرپڑھتے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی انسان کومخاطب کررہے ہیں۔ (صفوۃ الصفوۃ:۲/۱۳۵) وفات محرم سنہ۱۸۷ھ میں ان کی وفات ہوئی، عمر ۸۰/سے متجاوز تھی۔ اہل وعیال ان کے اہل وعیال کے بارے میں زیادہ تفصیل نہیں ملتی، بعض واقعات سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ شادی ہوئی تھی اور ایک اولاد بھی تھی، جن کا نام علی تھا، یہ عادات وخصائل میں ان کے مثنیٰ تھے، مگرعین عالم شباب میں ان کا انتقال ہوگیا، ابن خلکان کا بیان ہے: وكان ولده المذكور شابا سريا من كبار الصالحين، وهومعدود في جملة من قتلهم محبة الباري سبحانه وتعالى۔ (وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان:۴/۴۹، شاملہ،المؤلف:أبوالعباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر بن خلكان،موقع الوراق) ترجمہ:ان کے یہ صاحبزادے موت کے وقت جوان، ممتاز اور کبار صحالین میں تھے، ان کا شمار ان لوگوں کے زمرہ میں ہوتا تہے جن کی موت کا سبب خدا کی محبت ہوتی ہے۔ لیکن صبر وشکر کا عالم یہ تھا کہ نوجوان صالح اولاد کے انتقال پربھی وہ بے قابو نہیں ہوئے؛ بلک ہایک غم آمیز تبسم سے فرمایا: حدا نے جوپسند کیا میں بھی اس پرراضی ہوں۔ (ابنِ خلکان:۱۵۸) زریں اقوال: اوپر کی تفصیل سے زہد واتقا سے بھرپور زندگی کا ایک خاکہ آنکھوں کے سامنے پھرجاتا ہے؛ مگران کے سوانح حیات کے پورے خط وخال دیکھنے کے لیے ان کے ان گراں مایہ اقوال پربھی ایک نظر ڈال لینا ضروری ہے، جو ان کی پرحکمت زبان سے گاہ بگاہ صادر ہوتے رہے ہیں، فرماتے تھے کہ ہماری صحبت میں اس نے کچھ نہیں پایا جس نے نماز اور روزہ کی کثرت سیکھی؛ بلکہ اس کے لیے طبیعت کی سخاوت قلب کی سلامتی اور اُمت کی خیرخواہی کی ضرورت ہے؛ جس نے انسانوں کوپہچان لیا وہ راحت پاگیا (مقصد یہ ہے کہ یہ حقیقت جس نے پالی کہ کوئی انسان کچھ بنابگاڑ نہیں سکتا توپھران سے بالکل بے پرواہ ہوجائے گا اور اپنی ساری توجہ خدا کی طرف مبذول کرے گا)۔ (تہذیب الاسماء:۲/۵۲) فرماتے تھے کہ جب کبھی خدا کی کوئی نافرمانی کربیٹھتا ہو تومیں اپنے گدھے، اپنے خادم اور اپنی بیوی میں اس کا اثر محسوس کرتا ہوں، یعنی یہ سب میرے نافرمان ہوجاتے ہیں۔ جب خدا تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تواس کورنج وغم زیادہ دیتا ہے اور جب کسی سے ناخوش ہوتا ہے تواس پردنیا کووسیع کردیتا ہے، فرماتے تھے کہ اگردنیا اپنی ساری آسائیشوں اور زینتوں کے ساتھ مجھے دی جائے اور اس کے استعمال میں محاسبہ کا بھی کوئی خوف نہ ہو جب بھی میں اس سے اسی طرح بچوں گا، جس طرح تم لوگ مردار کھانے سے بچتے ہو۔ فرماتے تھے کہ اگرمجھے مقبولیت دعا کی سعادت ملتی تومیں صرف امام وقت کے لیے دعا کرتا کیونکہ امام وقت کی صلاح پررعیت کی صلاح کامدار ہے، جب یہ صالح ہوجائے گا توملک اور اہلِ ملک دونوں امن وسلامتی پاجائیں گے۔ اپنے اہم نشینوں سے ملاطفت اور حسن خلق کا برتاؤ کرنا رات بھرنفل نماز پڑھنے اور دن بھرنفلی روزہ رکھنے سے زیادہ ثواب کا کام ہے، ایک بار ہارون رشید نے ان سے کہا کہ آپ کے زہد کا کیا کہنا! جواب میں فرمایا: آپ تومجھ سے بھی بڑے زاہد ہیں؛ کیونکہ میں نے تودنیا سے بے رغبتی اختیار کی ہے اور یہ ایک مچھر کے پرس ے بھی کم درجہ کی چیز ہے؛ لیکن آپ نے اس آخرت سے بے نیازی اختیار کی ہے جس میں دنیا کی کوئی قیمت نہ ہوگی تومیں فانی کا زاہد ہوں اور آپ باقی کے زاہد ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ بات آپ نے سلیمان بن عبدالملک سے کہی تھی، فرمایا ہ دوسروں کے دکھاوے کے لیے کوئی عمل کرنا شرک ہے اور دوسروں کی وجہ سے کوئی عمل چھوڑدینا ریا ہے اور اخلاص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دونوں سے محفوظ رکھے۔ (یہ تمام اقوال البدایہ والنہایہ:۱/۱۹۹۔ ابن خلکان:۲/۱۵۸ سے لیے گئے ہیں) فرماتے تھے کہ جب تم رات کواُٹھ کرنفل پڑھنے اور دن کوروزہ رکھنے پرقادر نہ ہوتوسمجھ لوکہ محروم ہو اور تم کوتمہارے گناہوں نے گھیرلیا ہے، محمد بن حسان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک بار فضیل کی حدمت میں گیا وہاں امام ابن عیینہ بھی موجود تھے، وہ امام سے مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے کہ آپ لوگ یعنی علمائے دین زمین کا چراغ تھے، جن سے روشنی لی جاسکتی ہے؛ مگرآپ لوگ ظلمت کا سبب بن گئے ہیں، آپ لوگ ستاروں کے مانند تھے، جن سے گم کردہ راہِ راست پاسکتے تھے؛ مگرآپ سراپا حیرت بن گئے ہیں، آپ میں کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہے جوان ظالم حکمرانوں کا مال لینے اور پھرمسنددرس پربیٹھ کر حدثنا فلاں عن فلاں کہنے سے شرمائے (حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے غایتِ تشدد میں ایسی بات کہہ دی ہے؛ ورنہ تبع تابعین رحمہم اللہ کی ایک متعددبہ تعداد ایسی تھی جونہ حکومت سے کوئی مدد لیتی تھی اور نہ ان کوپسند کرتی تھی کتاب میں ایسے متعدد بزرگوں کے حالات آچکے ہیں)۔ (صفوۃ الصفوہ:۲/۱۳۵) فرماتے تھے کہ کوئی صاحب فضل وکمال اسی وقت صاحب فضل وکمال ہے جب تک وہ حود اپنے کوصاحب فضل وکمال نہ سمجھے۔ فرماتے تھے، اخیر زمانہ میں قوموں اور قبیلوں کے سردار منافق قسم کے لوگ ہوجائیں تواس وقت ان سے بچنے کی ضرورت ہے، اس لیئے کہ یہ ایسا مرض ہے کہ ان کی کوئی دوا نہیں ہے، لوگوں سے دور بھاگو مگر جماعت ترک نہ ہونے پائے، یہ زمانہ خوشی کا نہیں؛ بلکہ رنج وغم کا ہے (مقصد یہ ہے کہ دینی زندگی کا جب رواج کم ہوجائے توپھرمسلمان رہتے ہوئے خوش رہنا مناسب نہیں ہے؛ بلکہ کم سے کم اس پرافسوس ہی کرنا چاہیے)۔ فرماتے تھے کہ ہرچیز کا ایک دیباچہ ہوتا ہے، علماء کا دیباچہ یہ ہے کہ سب سے پہلے غیبت ترک کردیں، فرماتے تھے کہ حاملِ قرآن کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ اپنی کوئی ضرورت امراء واہلِ دولت کے پاس لے جائے؛ بلکہ ان کا منصب یہ ہے کہ خلقِ خدا اپنی حاجتیں اس کے پاس لے جائیں۔ دوستی کے بارے میں قیمتی ہدایت: فرماتے تھےکہ رحمٰن کے بندے وہ لوگ ہیں جن میں خشوع اور تواضع ہوتی ہے اور دنیا کے بندے وہ ہیں جن میں تکبر اور خود پسندی ہوتی ہے اور وہ عام لوگوں کوذلیل سمجھتے ہیں، فرمایا کرتے تھے کہ جوشخص بے عیب دوست تلاش کرتا ہے وہ بغیردوست ہی رہے گا ایسے شخص سے دوستی نہ کرو کہ جب تم سے خفا ہوتوتمہارے اوپربہتان تراشے، وہ تمہارا دوست نہیں ہے، جس نے تم سے کوئی چیز مانگی اور تم نے نہیں دی تووہ غضبناک ہوگیا، اب آپس میں وہ اخوت وہمدردی نہیں رہی کہ ایک بھائی ایک دوست اپنے بھائی یادوست کے مرجانے کے بعد اس کی اولاد کواپنی نگرانی میں لیتا تھا اور بالغ ہونے تک اپنے بچوں کی طرح ان کی پرورش کرتا تھا۔ علم وزہد کے بارے میں جامع ہدایات: جوشخص قرآن پڑھتا ہے اس سے اس طرح سوال کیا جائے گا، جس طرح انبیاء سے تبلیغ ورسالت کے بارے میں سوال ہوگا؛ کیونکہ قرآن پڑھنے والا انبیا کا وارث ہے۔ آخرت پسند عالم کا علم پوشیدہ رہتا ہے اور دنیا پسند عالم (یہ اس صورت میں ہے جب اپنے علم کوشہرت کی غرض ہی سے شائع وذرائع کرے) کے علم کی نشرواشاعت ہوتی ہے، عالم آخرت کی پیروی کرو اور عالم دنیا کی صحبت سے بچو! کیونکہ یہ اپنی فریب خوردگی اور دنیاوی زیب وزینت کے پھندے میں تمھیں ڈال دے گا، اس کی دعوت بغیر عمل کے ہوتی ہے اور اس کے عمل میں کوئی صداقت نہیں ہوتی، زہد کی ایک علامت یہ ہے کہ جب امراء اور اس کے ہم نشینوں کے یہاں ان کے جہل کا ذکر کیا جائے تووہ خوش ہوں۔ اکلِ حلال جوشخص یہ جان لے کہ اس کے پیٹ میں کیا جارہا ہے وہ خدا کے یہاں صدیق شمار کیا جائے گا توچاہیے کہ تم یہ دیکھو کہ تمہارا رزق کہاں سے اور کس ذریعہ سے آرہا ہے۔ (الطبقات الکبری:۱/۵۸،۵۹)