انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فتوحات پر ایک نظر فتوحات فاروقی کا رقبہ ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل بیان کیا جاتا ہے،یہ فتوحات ایران اور روم کی شہنشاہیوں کے مقابلے میں عرب کی مفلوک الحال اورچھوٹی سی قوم کو حاصل ہوئیں ، روم کی سلطنت جزیرہ نما بلقان،ایشیائے کوچک ،شام،فلسطین،مصر ،سوڈان پرچھائی ہوئی تھی،ایران کی سلطنت کو شکست دے کر شام کے ملک میں فاتحانہ بڑھتی ہوئی ساحل بحرادر مصر تک پہنچ گئی تھی، ایرانیوں کے قبضہ میں رومیوں سے کم ملک نہ تھے،یہ دونوں سلطنتیں مشرقی ومغربی دنیا پر اپنے اثر شہرت اورتمدن کے اعتبار سے مستولی تھیں اور کوئی تیسری طاقت اُن کے مقابلہ پر آنے والی دنیا میں پائی نہیں جاتی تھی،مسلمانوں کی اس حیرت انگیز کامیابی اورخارق عادت فتوحات کے اسباب بیان کرتے ہوئے عیسائی اورغیر مسلم مورخ کہتے ہیں کہ رومی اور ایرانی دو سلطنتیں کمزور ہوگئی تھیں اس لئے مسلمانوں کو بہ آسانی فتوحات کا موقع مل گیا، لیکن یہ وجہ بیان کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ عربوں یا مسلمانوں کی طاقت اُن کمزور شدہ سلطنتوں کے مقابلے میں کیا تھی،جب مسلمان اوران دونوں سلطنتوں کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا ہے،تو رومیوں اورایرانیوں کے درمیان کوئی مخالفت اورلڑائی نہیں تھی،نہ رومی ایرانیوں کے دشمن تھے نہ ایرانی رومیوں کے خون کے پیاسے تھے،دونوں سلطنتوں کو الگ الگ اپنی اپنی پوری طاقت مسلمانوں کے مقابلے میں صرف کردینے کی سہولت حاصل تھی،مسلمانوں کو بیک وقت رومیوں اورایرانیوں کا مقابلہ کرنا پڑا یہ دونوں سلطنتیں مہذب و متمدن سلطنتیں سمجھی جاتی تھیں اور بہت پرانی حکومتیں تھیں،ان کے پاس سامانِ حرب بافراط ،انتظامات مکمل ،فوج باقاعدہ مرتب،فوجی سردار اورانتظامی اہلکار شائستہ تجربہ کار موجود ،مسلمان اورعرب قوم ان چیزوں سے تہی دست تھی،پھر یوں بھی طاقتوں کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ ایرانی بھی اور رومی بھی ایک ایک میدان میں دو دو لاکھ سے زیادہ مسلح وآہن پوش لشکر لاسکے،درآنحالیکہ اس دو لاکھ لشکر کی پشت پر کسی عقب کے مقام پر اسی قدر تعداد کا دوسرا مکمل لشکر بھی موجود ہوتا تھا اوراس دو لاکھ کے لشکر کو لڑتے ہوئے اطمینان ہوتا تھا کہ ہماری امداد کے لئے ہمارے پیچھے ہمارے بھائیوں کی اتنی ہی بڑی تعداد اورموجود ہے، لیکن مسلمانوں کی بڑی سے بڑی فوج جو کسی میدان میں جمع ہوسکی ہے ،وہ تیس چالیس ہزار سے زیادہ نہ تھی اوریہ تعداد ہمیشہ اپنے دو دو لاکھ حریفوں کو میدان سے بھگا نے اور فتح پانے میں کامیاب ہوئی؛ حالانکہ اس کی پشت پر کوئی زبردست فوجی چھاونی بھی نہ ہوتی تھی، پس یہ کہہ کر فارغ ہوجانا کہ ایرانیوں اوررومیوں کی سلطنتیں پہلے کی نسبت کمزور ہوگئی تھیں،نہایت ہی احمقانہ بات ہے اورمسلمانوں کی فتح مندی کے اسباب تلاش کرنے کے کام سے ایک متلاشیٔ حقیقت کو فراغت حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس حقیقت کو اگر تلاش کرنا ہو تو اس بات پر غور کرو :ایرانی اور رومی دونوں شرک میں مبتلا تھے اورعرب ایمان کی دولت سے مالا مال ہوکر توحید پر قائم ہوچکے تھے،شرک ہمیشہ انسان کو بزدل اور ایمان ہمیشہ بہادر بنادیتا ہے،پس ایمان وتوحید کی بدولت عربوں میں وہ سچی بہادری پیدا ہوچکی تھی جو ایمان کے لئے شرط لازم ہے، اور جو کسی طاقت سے کبھی مغلوب ہو ہی نہیں سکتی،یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اسلام نے عربوں کو قرآن کریم اور اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جہاں بانی کے وہ اصول اور گر سکھا دیئے تھے کہ اُن کے مقابلے میں ایرانیوں اور رومیوں کی تہذیب اور اصول جہاں داری کسی طرح ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں ٹھہر سکتے تھے مسلمانوں نے جس بستی جس شہر، جس ضلع،جس صوبے کو فتح کیا ،وہاں غیر مسلم آبادی نے مسلمانوں کی آمد اورمسلمانوں کی حکومت کو جنت خیال کیا اور یہ سمجھا کہ اپنے ہم مذہبوں کی حکومت سے آزاد ہونا گویا ہمارے لئے دوزخ سے آزاد ہونا تھا، مفتوح اقوام نے اپنے فاتح عربوں کے اخلاق شفقت علی خلق اللہ،عدل ،رحم، میرچشمی ،بلند حوصلگی وغیرہ کو دیکھ کر بخوشی اپنے آپ کو اُن کے قدموں میں ڈال دیا، اورحقیقت یہ ہے کہ بنی نوعِ انسان اپنی انسانیت کو ان عرب فاتحین کی بدولت پہچانا تھا، پس رومیوں اورایرانیوں کا کیا حوصلہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں فتح مند ہوسکتے ،ایک تیسری بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ اسلام نے عربوں میں نہ صرف بہادری اور شجاعت ہی پیدا کردی تھی ؛بلکہ ان جیسی اتفاق وایثار اورقربانی کی مثال کسی قوم اورکسی ملک میں دستیاب ہرگز نہ ہوسکے گی جو صحابہؓ کرام میں اسلام کی بدولت پیدا ہوگئی تھی۔