انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عمرو بن العاص کا قبول اسلام حضرت عمروؓ بن العاص کہتے ہیں کہ غزوۂ خندق میں قریش کے دس ہزار کے لشکر کی شکست نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا ، میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ محمد (ﷺ ) سب پر غالب آتے جارہے ہیں ، میری مانو تو حبشہ چلو، نجاشی کی تابعداری محمد (ﷺ ) سے کہیں بہتر ہے ، سب نے اتفاق کیا اور بہترین تحائف لے کر نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے، اس موقع پر حضور اکرم ﷺکے سفیر عمرو ؓ بن اُمیہ ضمری کو دربار سے نکلتے دیکھا ، نجاشی کے دربار میں حاضر ہوکر سجدہ کیا ، قیمتی تحفے دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا ، میں نے عرض کیا کہ ابھی جو شخص دربار سے نکلا ہے وہ ہمارے حوالے کردیا جائے تاکہ ہم اس کو قتل کریں، یہ سنتے ہی نجاشی بہت غضب ناک ہوا اور کہا " کیا اس ہستی کے سفیر کو تمہارے حوالے کردو ں جس کے پاس وہ ناموس اکبر آتا ہے جو حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آیا کرتا تھا، ائے عمرو تیری حالت قابل افسوس ہے ، میری مان تو ان کی پیروی کر ، وہ حق پر ہیں اور تمام دشمنوں پر غالب آجائیں گے ، میں نے کہا اگر ایسا ہے تو ان کی طرف سے میری بیعت لے لیجئے ، اس نے ہاتھ بڑھا یا اور میں نے اسلام کی بیعت کرلی، اپنے ساتھیوں کو حبشہ ہی میں چھوڑا اور خود مدینہ کی راہ لی ، مقام ہَدّہ پر مکہ سے آنے والے حضرت خالدؓ بن ولید اور حضرت عثمان ؓ بن طلحہ سے ملاقات ہوئی ، سب نے ایک دوسرے کا حال پوچھا اور کہا کہ کدھر کا ارادہ ہے ؟ جواب دیا کہ مدینہ کا اس لئے کہ ہدایت کا سر چشمہ وہیں ہے؛ چنا نچہ تینوں مدینہ روانہ ہوئے، مقام ہدّہ پر تینوں ٹھہرے ، کسی نے آنحضرت ﷺ کو ہماری آمد کی اطلاع دی، بہت مسرور ہوئے اور فرمایا " مکہ نے اپنے جگر گوشوں کو ہماری طرف بھیج دیا ہے" حضرت خالدؓ کہتے ہیں " میں نے اچھے کپڑے پہنے، اتنے میں میرا بھائی ولید آیا ، کہا جلدی کرو، اللہ کے رسول تمہارے انتظار میں ہیں، ہم تیزی سے بڑھے ، ہمیں دیکھا تو چہرہ مبارک پر مسرت کے آثار نمودار ہوئے ، میں نے بے اختیار کہا السلام علیک یا رسول اللہ ، حضور ﷺ نے مسکرا کر سلام کا جواب دیا ، میں نے کلمہ شہادت پڑھا ، فرمایا قریب ہوجاؤ ، اور پھر فرمایا: اس ذات کے لئے حمد و ثنا جس نے تجھے اسلام کی توفیق دی، مجھے تیری عقل سے امید تھی کہ خیر کی طرف رہنمائی کرے گی، عرض کیا: " بہت شرمندہ ہوں کہ لڑائیوں میں حق کی مخالفت کرتا رہا ، میرے لئے دعا فرمائیے کہ اللہ خطاؤں کو معاف کرے، فرمایا اسلام پچھلی غلطیوں کو دھو ڈالتا ہے" اس کے بعد عثمانؓ بن ابی طلحہ نے دست اطاعت بڑھایا اور بیعت سے مشرف ہوئے ،ان کے بعد عمروؓ بن عاص بڑھے اورسامنے بیٹھ کر سر جھکا دیا، بہ مشکل عرض کیا، اس شرط پر بیعت کرتا ہوں کہ پچھلی خطائیں معاف کر دی جائیں، ارشاد فرمایا: اسلام حالت کفرکی خطائیں دھو ڈالتا ہے ، ہجرت پچھلے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج بھی پچھلے گناہوں کومٹا دیتا ہے ، اسلام قبول کرنے کے بعد وہ مکہ واپس ہوئے اور ضروری انتظامات کر کے مدینہ ہجرت کر کے آگئے ، اس طرح ان تینوں صحابہ ؓ نے اسلام قبول کیا (سیرت احمد مجتبیٰ)۔