انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۸۶۔ابو اسحٰق سبیعیؒ نام ونسب عمرونام،ابو اسحٰق کنیت،کنیت سے زیادہ مشہورہیں،نسب نامہ یہ ہے عمرو بن عبداللہ بن علی بن احمد بن ذی یحمد بن سبیع بن صعب بن معاویہ بن کثیر بن مالک بن جشم بن حاشذ بن چشم بن خیران بن نوف بن ہمدان ہمدانی کوفی۔ ہمدان میں ان کا ممتاز اورمشہور خاندان تھا، اسلامی عہد میں یہ خاندان کوفہ میں آباد ہوگیا تھا، حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں ابو اسحٰق کے دادا مدینہ آئے تھے،حضرت عثمانؓ نے ان کے خاندانی،اعزاز کا لحاظ کرکے پندرہ ہزار پانسو ان کا اور سو سو ان کے اہل وعیال کا وظیفہ مقرر کرکیا۔ (ابن سعد:۶/۲۱۹) پیدائش ابو اسحٰق غالباً کوفہ ہی میں عثمانی عہد کے آخر میں جب کہ حضرت عثمان کی خلافت میں تین سال باقی تھے،پیدا ہوئے۔ (ایضاً) اموی دور اموی دور میں بھی ابو اسحٰق کا خاندانی اعزاز قائم رہا،امیر معاویہؓ کے زمانہ میں یہ اوران کے والد تین سو وظیفہ پاتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰۲) فضل وکمال مرکز علم کوفہ میں ابو اسحٰق کی نشوونما ہوئی تھی،ان میں تحصیل علم کی فطری استعداد وصلاحیت تھی اس لیے علمائے کوفہ کے فیض سےپورا فائدہ اٹھایا اوران کا شمار علماء کے اکابر علماء میں ہوگیا،علامہ نووی لکھتے ہیں کہ ان کی توثیق ،جلالت اورثناء پر سب کا اتفاق ہے حافظ لکھتے ہیں کہ وہ علم کا ظرف تھے،ان کے مناقب بہت ہیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰۲)ابن ناصر الدین ان کو آئمہ اسلام اوربڑے حفاظ حدیث میں لکھتے ہیں۔ (شذرات الذہب:۱/۱۷۴) قرآن کے وہ نہایت مشہور قاری تھے،عبداللہ بن مسعودؓ کے اصحاب ان کو عمراء القاری کہتے تھے، اس فن کی تعلیم انہوں نے اس فن کے مشہور علماء ابو عبدالرحمن سلمی اوراسود بن یزید سے حاصل کی تھی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰۱) حدیث حدیث کے اکابر حفاظ میں تھے، حافظ ذہبی ان کو علم کا ظرف اورعلمائے اعلام میں لکھتے ہیں (ایضاً)صحابہ میں انہوں نے ابن عباسؓ،ابن عمرؓ،ابن زبیرؓ،معاویہؓ،عمروبن یزید الخطمیؓ، نعمان بن بشیرؓ،عمروبن الحارثؓ، عمرو بن الحریثؓ، زید بن ارقمؓ،براء بن عازبؓ،سلیمان بن صردؓ حارثہ بن وہبؓ،عدی بن حاتمؓ،جابر بن سمرہؓ، رافع بن خدیجؓ،عروہ بارقیؓ،ابو حجیفہؓ،خالد بن عرفطہؓ جریر بن عبداللہ بجلی،اشعث بن قیسؓ،مسور بن مخرمہؓ اورتابعین میں ایک کثیر جماعت سے سماعِ حدیث کیا تھا ، ابن مدینی نے ان کے شیوخ کی تعداد باختلافِ روایت تین یا چار سو لکھی ہے،ان میں اڑتیس صحابہ تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰۳) ابو حاتم روایات کی کثرت اوررجال کے علم میں ان کو امام زہری کا ہم پایہ سمجھتے تھے(تہذیب :۸/۶۵)ابو داؤد طیالسی کا بیان ہے کہ ہم نے چار آدمیوں کے پاس حدیث کا ذخیرہ پایا،ان چار میں ایک اسحٰق ہیں،حضرت علیؓ کی احادیث اورابن مسعودؓ کی روایات ان کے پاس زیادہ تھیں،ان کی جملہ احادیث کی تعداد دوہزار تک بیان کی جاتی ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰۲) تلامذہ شیوخ کے تناسب سے ان کے تلامذہ کا دائرہ بھی نہایت وسیع تھا اوراس میں بڑے بڑے تابعین اورتبع تابعین تھے،بعض قابل ذکر نام یہ ہیں،سلیمان التیمی،اعمش،قتادہ ،اسمعیل بن ابی خالد شریک بن عبداللہ عمارہ بن زریق،منصور بن معتمر،سفیان ثوری،مسعر،مالک بن منحول سفیان بن عینیہ،زبیر بن معاویہ،زائدہ،حسن بن صالح اورابوبکرہ بن عباس وغیرہ۔ (تہذیب الاسماء:ج اول،ق۲،ص۱۷۱) زہد وعبادت اس علم کے ساتھ عمل بھی اس درجہ کا تھا، بڑے عابدوزاہد تھے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں ‘کان صواما قوامامتقیتلا تین دن میں ایک قرآن ختم کرتے تھے ،روزہ بھی بکثرت رکھتے تھے۔ آخر عمر میں جب قویٰ ضعیف اورعبادتِ شاقہ کے متحمل نہ رہ گئے تھے اس وقت ان معمولات میں فرق آگیا تھا،لیکن پھر بھی مہینہ میں تین دن اور ہر جمعہ دوشنبہ کو اور شہر حرم میں پابندی سے روزہ رکھتے تھے اورایک رکعت میں پوری سورۂ بقرہ ختم کرتے تھے۔ جہاد فی سبیل اللہ جہاد فی سبیل اللہ کا بھی ولولہ تھا،امیر معاویہ کے زمانہ مین روم کی فوج کشی میں شریک ہوئے تھے۔ (ایضاً:۱۰۱) وفات ۱۲۷یا ۱۲۸ میں وفات پائی،وفات کے وقت کم وبیش سو سال کے قریب عمرتھی۔ (ایضاً:۱۰۳)