انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سعید بن زید ؓ نام،نسب،خاندان سعید نام،ابوالاعورکنیت ،والد کا نام زید اوروالدہ کا نام فاطمہ بنت بعجہ تھا،سلسلہ نسب یہ ہے،سعید بن زید بن عمروبن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرظ بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی القرشی العددی۔ حضرت سعید بن زید ؓ کا سلسلۂ نسب کعب بن لوی پر آنحضرت ﷺ سے اورنفیل پرحضرت عمرؓ سے مل جاتا ہے،حضرت سعید ؓ کے والد زید ان سعادت مند بزرگوں میں تھے جن کی آنکھوں نے اسلام سے پہلے ہی کفر وشرک کے ظلمت کدہ میں توحید کا جلوہ دیکھا تھا اورہر قسم کے فسق وفجور یہاں تک کہ مشرکین کے ذبیحہ سے بھی محترز رہے تھے، چنانچہ ایک دفعہ ان سے اورآنحضرت ﷺ سے قبل بعثت وادی بلدح میں ملاقات ہوئی،آنحضرت ﷺ کے سامنے کھانا پیش کیا گیا تو آپ نے انکار فرمایا، پھر انہوں نے بھی انکار کیا اور کہا میں تمہارے بتوں کا چڑھایا ہوا ذبیحہ نہیں کھاتا۔ (بخاری باب حدیث زید ۱۲ منہ) زید کا دل کفر وشرک سے متنفر ہوا تو جستجوئے حق میں دور دراز ممالک کی خا ک چھانی اور شام پہنچ کر ایک یہودی عالم سے مقصود کی رہبری چاہی، اس نے کہا اگر خدا کے غضب میں حصہ لینا ہے تو ہمارا مذہب حاضر ہے ،زید نے کہا میں اسی سے بھاگا ہوں،پھر اس میں گرفتار نہیں ہوسکتا،البتہ کوئی دوسرامذہب بتاسکتے ہو تو بتاؤ اس نے دین حنیف کا پتہ دیا ،انہوں نے پوچھا دین حنیف کیا ہے،بولا دین حنیف حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مذہب ہے جو نہ یہودی تھے، نہ عیسائی بلکہ صرف خدائے واحد کی پرستش کرتے تھے،یہاں سے بڑھے تو ایک عیسائی عالم سے چارہ خواہ ہوئے،اس نے کہا اگرخدا کی لعنت کا طوق چاہتے ہو تو ہمارا مذہب موجود ہے،،زید نے کہا خدارا کوئی ایسا مذہب بتاؤ جس میں نہ خدا کا غضب ہو نہ لعنت میں ان دونوں سے بھاگتا ہوں بولا میرے خیال میں ایسامذہب دین حنیف ہے،غرض جب ہرجگہ سے دین ابراہیم کا پتہ ملا تو شام سے واپس ہوئے اوردونوں ہاتھ اٹھا کر کہا خدا یا !تجھے گواہ بناتا ہوں کہ اب میں دین حنیف کا پیرو ہوں۔ (بخاری باب حدیث زید میں مفصل قصہ مذکور ہے) زید کو اس کفرستان میں اپنے موحد ہونے کا نہایت فخر تھا،حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بڑی ساحبزادی حضرت اسماءؓ کا بیان ہے کہ میں نے ایک دفعہ زید کو دیکھا کہ کعبہ سے پشت لگا کر کہہ رہے تھے، اے گروہِ قریش! خدا کی قسم میرے سوا تم میں کوئی بھی دین ابراہیم پر قائم نہیں ہے۔ (ایضاً) ایام جاہلیت میں اہل عرب عموماً اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے،لیکن خدائے واحد کے اس تنہا پرستار کو ان معصوم ہستیوں کے بچانے میں خاص لطف حاصل ہوتا تھا اورجب کوئی ظالم باپ اپنی بے گناہ بچی کے حلق پر چھری پھیرنا چاہتا تھا تو اس کی کفالت اپنے ذمہ لیتے اورجب جوان ہوجاتی تو اس کے باپ سے کہتے جی چاہے لے لو یا میری ہی کفالت میں رہنے دو۔ (ایضاً) اسلام جب رسول اللہ ﷺ نے دین حنیف کو زیادہ مکمل صورت میں دوبارہ دنیا کے سامنے پیش کیا اوردعوتِ توحید شروع کی،توگو اس وقت اس کے سچے شیدائی صفحۂ ہستی پر موجود نہ تھے؛ تاہم ان کے فرزند سعید ؓ کے لیے یہ آواز بلکل مانوس تھی ،انہوں نے جوش کے ساتھ لبیک کہا اوراپنی نیک بخت بیوی کے ساتھ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ حضرت سعید ؓ کی بیوی حضرت فاطمہ ؓ حضرت عمرؓ کی حقیقی بہن تھیں، لیکن وہ خود اس وقت تک اسلام کی حقیقت سے نا آشنا تھے، بہن اوربہنوئی کی تبدیلی مذہب کا حال سن کر نہایت برافروختہ ہوئے اوردونوں میاں بیوی کو اس قدر مارا کہ لہولہان ہوگئے،(طبقات ابن سعد قسم اول جزو۳:۱۹۲)لیکن یہاں کچھ ایسی وارفتگی تھی کہ اس تمام زدو کوب کا صرف یہی ایک جواب تھا: من زجاناں گرچہ صدانددہ جان خواہم کشید تانہ پنداری کہ خودرا بکراں خواہم کشید یہاں تک کہ ان بزرگوں کی اسی استقامت و استقلال نے خود حضرت عمر ؓ کو بھی اسلام کی حقانیت کا جلواہ دکھادیا اوربالآخر عمروبن الخطاب سے فاروقِ اعظم بنادیا۔ ہجرت اورغزوات حضرت سعید ؓ مہاجرین اولین کے ساتھ مدینہ پہنچے،اورحضرت رفاعہ بن عبدالمنذر ؓ انصاری کے مہمان ہوئے کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ا ن میں اورحضرت رافع بن مالک ؓ انصاری میں بھائی چارہ کرادیا۔ (طبقات ابن سعد حصہ بدر یین ترجمہ سعید بن زید ؓ) ۲ھ میں قریش مکہ کا وہ مشہور قافلہ جس کی وجہ سے جنگ بدرپیش آئی ملک شام سے آرہا تھا، رسول اللہ ﷺ نے ان کو اورحضرت طلحہ ؓ کو اس تجسس پر مامور فرمایا، یہ دونوں حدودِ شام میں تجبار پہنچ کر کشد جہنی کے مہمان ہوئے اورجب قافلہ وہاں سے آگے بڑھا تو نظر بچا کر تیزی کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے کہ رسالت مآب ﷺ کو پوری کیفیت سے مطلع کریں،لیکن قافلہ نے کچھ سن گن پاکر ساحلی راستہ اختیار کیا اور کفارقریش کی ایک بڑی جمعیت کے جواس کی مدد کے لیے آئی تھی اورپرستاران حق کے درمیان کے میدان میں مشہور معرکہ پیش آیا جس نے اسلام کو ہمیشہ کے لیے سر بلند کردیا۔ غرض جس وقت حضرت سعید ؓ میدان پہنچے اس وقت غازیانِ دین فاتحانہ سرورانبساط کے ساتھ میدانِ جنگ سے واپس آرہے تھے،چونکہ یہ بھی ایک خدمت پرمامور تھے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کو بدر کے مالِ غنیمت میں حصہِ مرحمت فرمایا اورجہاد کے ثواب سے بھی بہرہور ہونے کی بشارت دی۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ سعید بن زید ؓ) حضرت سعید ؓ جنگ بدر کے سواتمام غزوات میں مرادنگی وشجاعت کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہمرکاب رہے،لیکن افسوس ہے کہ کسی غزوۂ کے متعلق کوئی تفصیلی واقعہ نہیں ملتا۔ عہدفاروقی میں جب شام پر باقاعدہ فوج کشی ہوئی توحضرت سعید ؓ حضرت ابوعبیدہ ؓ کے ماتحت پیدل فوج کی افسری پر متعین ہوئے،دمشق کے محاصرہ اوریرموک کی فیصلہ کن جنگ میں نمایاں شجاعت وجانبازی کے ساتھ شریک کارزار تھے،اثنائے جنگ میں حضرت ابوعبیدہ ؓ کو لکھا کہ میں ایسا ایثار نہیں کرسکتا کہ آپ لوگ جہاد کریں اور میں اس سے محروم رہوں، اس لیے خط پہنچنے کے ساتھ ہی کسی کو میری جگہ بھیجدیجئے میں عنقریب آپ کے پاس پہنچتا ہوں حضرت ابو عبیدہ ؓ نے مجبور ہوکر حضرت یزید بن ابی سفیان ؓ کو دمشق پر متعین کیا اورحضرت سعید ؓ پھر میدان رزم میں پہنچ گئے۔ وفات فتح شام کے بعدحضرت سعید ؓ کی تمام زندگی نہایت سکون وخاموشی سے بسر ہوئی ،یہاں تک کہ ۵۰ ھ یا ۵۱ ھ میں ستربرس تک اس سرائے فانی میں رہ کر رحلت گزین عالم جاوداں ہوئے،چونکہ نواحِ مدینہ میں بمقام عقیق آپ کا مستقل مسکن تھا، اس لیے وہیں وفات پائی جمعہ کا دن تھا عبداللہ بن عمرؓ نماز جمعہ کی تیاری کررہے تھے کہ وفات کی خبر سنی،اسی وقت عقیق کی طرف روانہ ہوگئے،حضرت سعد وقاص ؓ نے غسل دیا،حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اورمدینہ لاکر سپرد خاک کیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ذاتی حالات اوراخلاق وعادات حضرت سعید ؓ کا دل دنیاوی جاہ وحشمت سے مستغنی تھا، صرف مقام عقیق کی جاگیر پر گذراوقات تھی،آخر میں حضرت عثمان ؓ نے عراق میں بھی ایک جاگیر دی تھی۔ امیر معاویہ ؓ کے عہد میں اروی نامی ایک عورت نے جس کی زمین ان کی جاگیر سے ملی ہوئی تھی، مدینہ کے عامل مروان بن حکم کے دربار میں شکایت کی کہ انہوں نے اس کی کچھ زمین دبالی ہے،مروان نے تحقیقات کے لیے دو آدمی متعین کیے،حضرت سعید ؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جواپنے مال کے آگے قتل ہو وہ شہید ہے، پھر مروان سے کہا :کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں نے اس کے ساتھ ظلم کیا ہے؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی ایک بالشت زمین بھی ظلم و زبردستی سے لے گا تو ویسی ویسی ساتھ زمینیں قیامت میں اس کے گلے کا ہار ہوں گی، مروان نے قسم کھانے کو کہا تو یہ اپنی زمین سے باز آگئے اوراس عورت کے حق میں بددعا کے طورپر فرمایا اے خدا! اگر یہ جھوٹی ہے تو اندھی ہوکر مرے اوراس کے گھر کا کنواں خود اس کے لیے قبر بنے ،خدا کی قدرت بددعا کا تیر ٹھیک نشانہ پر لگا وہ عورت بہت جلد بصارت کی نعمت سے محروم ہوگئی اورایک روز گھر کے کنویں میں گرکرراہی عدم ہوئی،چنانچہ یہ واقعہ اہل مدینہ کے لیے ضرب المثل ہوگیا، اوروہ عموماً یہ بددعا دینے لگے۔اعماک اللہ کما اعمیٰ اروی حضرسعید ؓ کے سامنے بہت سے انقلابات برپا ہوئے بیسیوں خانہ جنگیاں پیش آئیں اور وہ اپنے زہدواتقاء کے باعث ان جھگڑوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہے؛ تاہم جس کی نسبت جو رائے رکھتے تھے اس کو آزادی کے ساتھ ظاہر کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے،حضرت عثمان ؓ شہید ہوئے تو وہ عموماً کوفہ کی مسجد میں فرمایا کرتے تھے تم لوگوں نے عثمان ؓ کے ساتھ جو سلوک کیا، اس سے اگر کوہِ احدمتزلزل ہوجائے تو کچھ عجب نہیں۔ (بخاری باب بنیان الکعبہ باب اسلام سعید بن زید ؓ) حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ امیر معاویہ ؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے،ایک روزوہ جامع مسجد میں عوام کے ایک حلقہ میں بیٹھے تھے کہ حضرت سعید بن زید ؓ داخل ہوئے تو انہوں نے نہایت تعظیم وتکریم کے ساتھ ان کا استقبال کیا اوراپنے پاس بٹھایا،اسی اثناء میں ایک دوسرا آدمی اندر آیا اورحضرت علی ؓ کی شان میں نامناسب کلمات استعمال کرنے لگا، حضرت سعید ؓ سے ضبط نہ ہوسکا ،بولے مغیرہ !مغیرہ! لوگ تمہارے سامنے رسول اللہ ﷺ کے جان نثاروں کو گالیاں دیتے ہیں اور تم منع نہیں کرتے، اس کے بعد اصحابِ عشرہ ؓ سے آٹھ آدمیوں کا نام لے کر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت کی بشارت دی ہے اوراگر چاہو تو میں نویں آدمی کا نام بھی لے سکتا ہوں، لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا نواں میں ہوں ۔ (مسند :۱/۱۸۷) حضرت سعید ؓ کے حالات کتب میں بہت کم ہیں تاہم وہ بالاتفاق ان صحابہ کرام ؓ میں تھے جو آسمان اسلام کے مہروماہ ہیں،وہ لڑائیوں میں آنحضرت ﷺ کے آگے رہتے تھے اور نماز میں پیچھے۔ (اسد الغابہ ترجمہ سعید بن زید ؓ) حلیہ یہ تھا، قد لمبا، بال بڑے بڑے اورگھنے اہل وعیال حضرت سعید ؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کی تھیں، بیویوں کے نام یہ ہیں فاطمہ،(ام الجمیل) جلیسہ بنت سوید،امامہ بنت الدجیج،حزمہ بنت قیس ،ام الاسود،ضمخ بنت الاصبغ بنت قربہ، ام خالد، بشیر بنت ابی مسعود انصاری۔ ان بیویوں نیز لونڈیوں کے بطن سے نہایت کثرت کے ساتھ اولاد ہوئی ،لیکن ان میں سے اکثر لاولد ہوئی،جن لڑکیوں اورلڑکوں کے نام معلوم ہوسکے، وہ علیحدہ علیحدہ درج ذیل ہیں۔ لڑکے عبدالرحمن اکبر، عبدالرحمن اصغر، عبداللہ اکبر، عبداللہ اصغر، عمراکبر، عمراصغر، محمد، اسود،زید،طلحہ،خالد،ابراہیم اکبر ،ابراہیم اصغر لڑکیاں عاتکہ، ام موسیٰ،ام الحسن ،ام سلمی، ام حبیب کبری،ام حبیب صغریٰ، ام زید کبریٰ، ام زید صغریٰ، ام سعید، ام سلمہ، حفصہ،ام خالد،عائشہ،زینب ،ام عبدالحولا، ام صالح۔