انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قصہ طلاق امیمۃ بنت النعمان، الجونیۃ بنی کندہ کے سردار نعمان بن جون کندی نے اپنی لڑکی حضورﷺ کے نکاح میں دی اور اسے ابواسید کی نگرانی میں حضورﷺ کے پاس بھجوایا اسے حضرت عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کے پاس ٹھہرایا گیا امیمۃ خاندان حکومت سے ہونے کے زعم میں دوسرے خاندان میں جانے کے لیے ذہناً تیار نہ تھیں، حضورﷺ جب اس کے پاس خلوت میں گئے اُس نے کہا: ملکہ اپنے کوکب رعیت کے سپرد کرسکتی ہے، حضورﷺ نے اسے سامنے طلاق دے دی اور طلاق کے دو (کتانی) جوڑے دے کر رخصت فرمادیا، اس پر امام بخاریؒ نے یہ باب باندھا ہے: "بَاب مَنْ طَلَّقَ وَهَلْ يُوَاجِهُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ بِالطَّلَاقِ"۔ (صحیح بخاری:۲/۷۹) ترجمہ: آیامرد اپنی عورت کوسامنے طلاق دے۔ طلاق سے صاف ظاہر ہے کہ جونیہ آپ کی ازواج میں سے تھی اور اس کا حضورﷺ سے نکاح ہوچکا تھا، اس روایت میں دوجملے متشابہات میں سے ہیں: (۱)آپ کا اسے "هَبِي نَفْسَكِ" (ترجمہ:مجھے اپنا آپ بخش دے) کہنا نکاح کے لیے نہ تھا، زوجیت پرآمادہ کرنے کے لیے تھا، یہ الفاظ نکاح کے لیے بھی آتے ہیں؛ لیکن یہاں یہ دوسرے معنی میں ہیں اور سیاق کلام اسی کا تقاضا کرتا ہے؛ ملحدین یہاں یہ کہتے ہیں کہ اس روایت کی رو سے آپ (معاذ اللہ) بغیرنکاح اس کے پاس گئے تھے اور اس کے انکار پرپیچھے ہٹ گئے اور وہ یہ نہیں سوچتے کہ پھرطلاق کا موضوع کیوں زیربحث آگیا اور محدثین اسے کتاب الطلاق میں کیوں لائے؟۔ (۲)جونیہ کے جملہ "هَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ" (ترجمہ:کیا ملکہ اپنے کورعیت کے سپرد کرسکتی ہے؟) کوبھی غلط معنی پہناتے ہیں اور "سوقۃ" کے معنی نعوذ باللہ(بازاری) کے کرتے ہیں کہ اس نے کہا: میں اپنے آپ کوکیسے بازاری کے سپرد کروں (استغفراللہ) علامہ فیومی لکھتے ہیں: "وَقَوْلُهُمْ رَجُلٌ سُوقَةٌ لَيْسَ الْمُرَادُ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْأَسْوَاقِ كَمَاتَظُنُّهُ الْعَامَّةُ بَلْ السُّوقَةُ عِنْدَ الْعَرَبِ خِلَافُ الْمَلِكِ"۔(قَالَ الشَّاعِرُ:فَبَيْنَا نَسُوسُ النَّاسَ وَالْأَمْرُ أَمْرُنَا،إذَا نَحْنُ فِيهِمْ سُوقَةٌ نَتَنَصَّفُ ) (مصباح المنیر:۱/۱۳۵) متشابہات کے سائے میں یہ بدترین مثال ہے، جس پرمنکرینِ حدیث ناز کرتے ہیں