انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۴۳۔عبدالرحمن بن غنمؒ نام ونسب عبدالرحمن نام، والد کا نام غنم تھا، نسب نامہ یہ ہے، عبدالرحمن بن غنم بن کریب ابن ہانی بن ربیعہ بن عامر بن عدی بن وائل بن ناجیہ بن انخیل بن جماہر بن اوغم بن اشعر اشعری بعض علماء انہیں صحابی بتاتے ہیں اور اس کے ثبوت میں یہ واقعہ پیش کرتے ہیں کہ وہ ابو موسیٰ اشعری کے ساتھ آئے تھے،لیکن یہ بیان صحیح نہیں ہے وہ عہد رسالت میں موجود ضرور تھے اور اسی عہد میں مشرف بہ اسلام بھی ہوئے تھے، لیکن آنحضرت ﷺ کے شرف زیارت سے محروم رہے،یہ روایت تقریباً متفق علیہ ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھو تہذیب التہذیب :۶/۲۵۰) فضل وکمال فضل وکمال کے لحاظ سے عبد الرحمن ممتاز تابعین میں تھے،ابو مسہر غسانی انہیں راس التابعین کہتے تھے، حافظ ذہبی لکھتے ہیں ‘کان کثیر القدر صادقا فاضلاً’ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۲۴)ابن سعد نے انہیں شام کے تابعین طبقہ اول میں لکھا ہے،عجلی کبار تابعین میں لکھتے ہیں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ وہ صاحبِ جلالت اورذی مرتبہ تھے۔ (تہذیب التہذیب:۶/۲۵۱) حدیث انہوں نے جاہلیت اوراسلام دونوں کا زمانہ پایا،اس لیے انہیں صحابہ کبار کی ایک بڑی جماعت سے استفادہ کا موقعہ ملا؛چنانچہ حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ،ابوذرغفاریؓ،ابودرداءؓ،ابوعبیدہؓ بن جراحؓ، ابو مالک اشعریؓ،ابو موسیٰ اشعریؓ ،ابوہریرہؓ، عبادہ بن صامتؓ،ثوبانؓ، اور معاویہؓ وغیرہ سے انہوں نےسماعِ حدیث کیا تھا۔ (ایضا:۲۵) حضرت معاذ بن جبلؓ کی صحبت سے خصوصیت کے ساتھ زیادہ مستفید ہوئے تھے،ان کی ہم جلیسی اورصحبت کی وجہ سے صاحب معاذ ان کا لقب ہوگیا تھا۔ (تہذیب الاسماء:۱/۳۰۳) خود ان سے فیض پانے والوں میں ان کے لڑکے محمد بن عبدالرحمن ،عطیہ بن قیس ابو سلام الاسود، مکحول شامی، شہر بن جوشب رجاءبن حیوٰۃ،عبادہ بن نسی، مالک بن ابی مریم ادرصفوان بن سلیم وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ (تہذیب الاسماء:۱/۳۰۳) فقہ عبدالرحمٰن کا خاص فن فقہ تھا، اس میں ان کو بڑی بصیرت حاصل تھی، ان کے تفقہ کی بڑی سند یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے ان کو فقہ کی تعلیم دینے کے لیے شام بھیجا تھا،شام کے تمام تابعین نے فقہ ان ہی سے حاصل کی تھی۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۴۴،وتہذیب الاسماء:۱/۳۰۳) وفات ۷۸ میں شام ہی میں وفات پائی۔ (ایضاً)