انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت سلیمان بن بلالؒ نام ونسب سلیمان نام اور ابو محمد اورابوایوب کنیت اور والد کا نام بلال تھا،حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پوتے قاسم بن محمد کے غلام تھے جو نسبا تیم قریش سے تعلق رکھتے تھے،اس طرف منسوب ہوکر سلیمان بھی تیمی اورقریشی مشہور ہوئے ۔ (طبقات ابن سعد:۵/۳۱۱،والباب فی تہذیب الانساب:۱/۱۹۰) وطن مدینہ طیبہ کے رہنے والے تھے، پوری زندگی اسی کی جاروب کشی میں گذاری۔ فضل وکمال علم و دانش اورفضل وکمال میں یکتا ئے عصر تھے،بالخصوص فقہ میں ان کا تبحر وتفوق مسلم تھا، حدیث کے بھی ممتاز حافظ تھے،ماہر نقد وجرح عبدالرحمن بن مہدی (المتوفی ۱۹۸ھ) تاحیات اس بات پر کفِ افسوس ملتے رہےکہ وہ سلیمان سے زیادہ احادیث کا سماع حاصل نہ کرسکے (تہذیب التہذیب:۴/۱۷۶)علامہ ذہبی انہیں الحافظ المفتی لکھتے ہیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۱) ابن سعدرقمطراز ہیں،کان ثقۃ کثیر الحدیث (طبقات ابن سعد:۵/۳۱۱) ذھلی کابیان ہے کہ مدنی شیوخ کی مرویات میں انہیں خاص تبحر حاصل تھا۔ (تہذیب التہذیب:۴/۱۷۶) شیوخ واساتذہ انہیں جن علماء کبار سے روایت حدیث کی سعادت نصیب ہوئی،ان میں عبداللہ بن دینار،زید بن اسلم،خثیم بن عراک،ابوحازم الاعرج ربیعۃ الرائے،اسماعیل بن ابی صالح،ابن عجلان،موسیٰ بن انس ،موسیٰ بن عقبہ،ہشام بن عروہ ،یحییٰ بن سعید،یزید بن خصیفہ ،ثور بن زید الدیلی،جعفر الصادق،سہیل بن ابی صالح ،عتبہ بن مسلم اوریونس بن یزید لائق ذکر ہیں۔ خود ان کے فضل وکمال سے مستفید ہونے والوں میں مشاہیر فن علماء کے نام شامل ہیں،چند یہ ہیں: عبداللہ بن مبارک،خالد بن مخلد،یحییٰ بن یحییٰ النیساپوری،محمد بن سلیمان لوین،سعید بن ابی مریم، عبدالعزیز بن ابی اویس ،سعید بن عفیر، عبداللہ بن وہب ،ابو سلمۃ الخزاعی،بشر بن عمرالزہرانی،قعنبی،سب سے آخری راوی لوین ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۱) فقہ وافتاء کمال تفقہ کے باعث مدینہ منورہ میں ان کی ذات افتاء کا مرکز ومرجع بن گئی تھی، یہاں تک کہ "مفتی مدینہ" ان کا لقب ہی پڑ گیا تھا۔ وصولی خراج کی افسری ان کی دیانت وتقویٰ عوام وخواص میں اس درجہ مسلم تھاکہ اپنے شہر مدینہ کے تمام خراج کے ذمہ دار اور افسر بھی مقرر کیے گئے۔ (طبقات ابن سعد:۵/۳۱۱) ثقاہت ان کی عدالت وثقاہت پر یہ تمام ائمہ فن متفق ہیں،یحییٰ بن معین خلیلی، عبدالرحمن بن مہدی،ابن عدی، ابن حبان اورابن شاہین،سب برملا ان کوثقہ اورصالح الحدیث قرار دیتے ہیں، ابن عماد حنبلی رقمطراز ہیں ‘کان من الثقات الاثبات’(شذرات الذہب :۱/۲۸۱) یعنی وہ ثقہ اورثبت علماء میں تھے، علامہ ابن سعد ثقہ اورکثیر الحدیث لکھ کر ان کے علم وفضل کو سراہتے ہیں (طبقات ابن سعد:۵/۳۱۱)سلیمان کی ثقاہت کا ایک بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ امام مالکؒ نے بھی ان سے روایت کی ہے،حافظ ابن حجرؒ نے فاکھی کی کتابِ مکہ میں امام صاحب کی اس روایت کو خود دیکھ کر اس کی شہادت دی ہے۔ (تہذیب التہذیب:۴/۱۷۶) وفات:۱۷۲ھ ہارون الرشید کے ایام خلافت میں بمقام مدینہ طیبہ رحلت فرمائے عالمِ جاوداں ہوئے۔ (العبرفی خبر من غبر:۱/۲۶۱،وتذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۲ وشذرات الذہب:۱/۲۸۱)