انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حرث بن شریح سنہ۱۰۰ھ سے جب کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کا زمانہ تھا، بنوعباس نے اپنی خلافت کے لیے بنواُمیہ کے خلاف خفیہ کوششوں اور سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا، یہ کوششیں نہایت احتیاط اور دانائی کے ساتھ جاری تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض احادیث کوخاص طور پرشائع کیا جاتا تھا، بعض روایات مصلحتاً وضع بھی کرلی گئی تھیں، بعض روایات میں کچھ فقرات اضافہ کردیے گئے تھے، جن سب کا منشا یہ تھا کہ لوگوں کواس بات کا کامل یقین دلایا جائے کہ خلافت اسلامیہ بنوعباس میں ضرور آئے گی اور بہت جلد آئے گی، اس کے علاوہ بنوہاشم کا حق دار خلافت ہونا اور بنواُمیہ کا ناجائز طور پربرسرِحکومت آجانا؛ چونکہ پہلے ہی سے انقلابی جماعتوں کے لیے بطور ایک زبردست ہتھیار کے استعمال ہورہا تھا؛ لہٰذا ان باتوں سے بھی خوب فائدہ اُٹھایا گیا، اس کام کے لیے خاص خاص قابل آدمی بطورِ مشنری مصروفِ کار تھے اور بنواُمیہ اپنی زعمِ حکومت میں ایسی باتوں کونہ خاطر میں لاتے نہ ان کے انسداد کی طرف متوجہ ہونے کوضروری سمجھتے تھے، نہ اس قسم کی خفیہ سازشوں کی ٹوہ اور تلاش میں رہنا پسند کرتے تھے۔ فاطمیوں اور علویوں نے بھی عباسیوں کے متوازی اس قسم کی کوششوں اور سامشوں کا سلسلہ پہلے ہی سے باقاعدہ جاری رکھا تھا اور یہ تمام سلسلے خراسان ہی میں نشونما پارہے تھے؛ کیونکہ خراسان ہی کی آب وہوا ایسی کوششوں اور سازشوں کے لیے زیادہ موافق وموزوں تھی، خراسان میں ازد کے نامور قبیلے کا سردار حرث بن شریح خاص طور پرعلویوں اور فاطمیوں کا شیدائی تھا؛ چنانچہ سنہ۱۱۶ھ میں اس نے سیاہ کپڑے پہنے اور لوگوں کواتباع کتاب وسنت اور بیعت امام رضا کی دعوت دی اور فاریاب میں پہنچ کراس کام کوشروع کیا، چار ہزار کی جاں باز جمعیت اس کے گرد جمع ہوگئی، یہ اس فوج کولےکربلخ کی کی طرف متوجہ ہوا، بلخ میں ان دنوں نصر بن سیار حاکم تھا وہ دس ہزار فوج لے کرمقابلہ کونکلا؛ مگرشکست کھائی، حرث بن شریح بلخ پرقابض ومتصرف ہوکر اور اپنی طرف سے سلیمان بن عبداللہ بن حازم کوبلخ میں مامور کرکے جرجان کی طرف بڑھا، بڑی آسانی سے جرجان پربھی قابض ومتصرف ہوکر مرو کی طرف متوجہ ہوا، مرو میں عاصم بن عبداللہ نے لوگوں کوجمع کرکے مقابلہ پرآمادہ کرنا چاہا؛ لیکن یہاں بھی پہلے ہی سے حرث بن شریح کے ساتھ لوگوں کی خط وکتابت جاری تھی، حرث بن شریح کی جمیعت ساٹھ ہزار تک پہنچ چکی تھی جس میں ازدوتمیم کے نامی سردار اور فاریاب وطالفان کے زمیندار سب شامل تھے، ادھر عاصم بن عبداللہ نے بھی مقابلہ کے لیے تمام ممکن کوششوں سے کام لیا، حرث بن شریح نے مروپرنہایت جرأت کے ساتھ حملہ کیا؛ مگرعین مقابلے کے وقت اس کی فوج میں سے چار ہزار آدمی ازدوتمیم کے کٹ کرعاصم کی فوج میں آملے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حرث بن شریح کے ہمراہیوں کی جرأت ودلیری اور جوش وخروش میں کسی قدر فرق آگیا؛ مگرلڑائی بڑے زور وشور کی ہوئی، نتیجہ یہ ہوا کہ حرث بن شریح شکست کھاکر پیچھے کولوٹا اور عاصم نے اس کا تعاقب نہ کیا، عاصم نے منازل رہبان کے قریب پہنچ کراپنا خیمہ نصب کیا تواس کے پاس کل تین ہزار سوار آکر جمع ہوئے، حرث بن شریح نے اس کے بعد اپنی حالت کوپھردرست کرلیا اور وہ اپنے مقبوضات کوخراسان میں جلدی ترقی دیتا رہا۔ ان حالات سے مطلع ہوکردمشق سے ہشام بن عبدالملک نے عاصم سے جواب طلب کیا توعاصم نے لکھا کہ خراسان کا تعلق براہِ راست چونکہ دمشق یعنی دربارِ خلافت سے ہے اس لیے اطلاعات کے جانے اور بوقت ضرورت مدد کے آنے میں توقف ہوتا ہے، مناسب یہ ہے کہ جس طرح پہلے خراسان کا صوبہ عراق کے ماتحت تھا؛ اسی طرح اس کواب بھی عراق کے ماتحت کردیا جائے؛ تاکہ بصرہ وکوفہ سے جلد امداد پہنچ سکے، ہشام بن عبدالملک نے اس رائے کوتوپسند کیا مگرعاصم بن عبداللہ کوخراسان کی حکومت سے معزول کردیا اور خالد بن عبداللہ تسری گورنرعراق کولکھا کہ تم اپنے بھائی اسد بن عبداللہ کوپھرخراسان کا حاکم بناکر بھیج دو، عاصم کوجب اپنی معزولی اور اس جدید انتظام کی خبرپہنچی تواس نے حرث بن شریح کے ساتھ مصالحت کرکے یہ تجویز کی کہ آؤ ہم دونوں ہشام بن عبدالملک کوایک تبلیغی خط لکھیں اور کتاب وسنت پرعمل کرنے کی دعوت دیں اگروہ انکار کرے تودونوں متفق ہوکر اس کی مخالفت میں کوشاں ہوں؛ لیکن یہ مصالحت تادیر قائم نہ رہ سکی اور نیتجہ خیز ثابت نہ ہوئی، دونوں میں کسی بات پراَن بن ہوگئی اور لڑائی تک نوبت پہنچی، اس لڑائی میں حرث کوشکس تہوئی اور اس کے اکثرہمراہیوں کوعاصم نے گرفتار کرکے قتل کرڈالا اور اس فتح کوہشام بن عبدالملک کی خوشنودی مزاج کا ذریعہ بنانا چاہا؛ مگراس بن عبداللہ سندگورنری لیے ہوئے قریب پہنچ چکا تھا اس نے آتے ہی عاصم کوگرفتار کرلیا، یہ واقعہ سنہ۱۱۷ھ کا ہے، اسد بن عبداللہ نے خراسان کی حکومت اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں حرث بن شریح سے خراسان کے شہروں کوواپس چھیننا شروع کیا، بلخ کولے کرترمذ کا قصد کیا؛ غرض دوبرس تک اسد بن عبداللہ حرث بن شریح اور ترکوں کے ساتھ برابرمصروف جنگ رہا، حضرت بن شریح کی حالت نہایت کمزور ہوگئی تھی اور وہ اپنے چند رفیقوں کے ساتھ ادھر اُدھر پناہ ڈھونڈتا پھرتا تھا، سنہ۱۱۹ھ میں خاقان اور بدرطرخان اسلامی لشکر کے مقابلہ میں مارے گئے اور اسدبن عبداللہ کی فتوحات کا سلسلہ ترکستان سے گذرکرمغربی چین تک پہنچ گیا۔ ماہ ربیع الاوّل سنہ۱۲۰ھ میں اسدبن عبداللہ قسری مقام بلخ میں فوت ہوا، مرتے وقت اس نے جعفر بن حنظلہ نہروانی کواپنا جانشین بنایا، جس نے چار مہینے امارت کی اس کے بعد ماہِ رجب میں نصربن سیارخراسان کا گورنرمقرر ہوا؛ اسی سال یعنی سنہ۱۲۰ھ میں ہشام بن عبدالملک سے خالد بن عبداللہ گورنرعراق کے مخالفوں نے اس کی شکایت کی، ہشام بن عبدالملک نے خالد بن عبداللہ کوگورنری عراق سے معزول کرکے یوسف بن عمرثقفی کوسند گورنری عطا کی، یوسف بن عمرثقفی ایک طرف عابدوزاہد تھا تودوسری طرف سفاک واحمق بھی تھا، نصر بن سیار نے خراسان کی حکومت اپنے ہاتھ میں لی توسب سے پہلے اس بات کی کوشش کی کہ نومسلموں سے جزیہ لینا فوراً موقوف کیا جس کا اثر فوراً نمودار ہوا کہ ترکوں میں اسلام بڑی سرعت سے پھیلنا شروع ہوگیا۔