انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سہل بن سعدؓ نام ونسب سہل نام،ابو العباس،ابو مالک،ابویحییٰ کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے، سہل بن سعد بن مالک بن خالد بن ثعلبہ بن حارثہ بن عمرو بن خزرج بن ساعدہ بن کعب بن خزرج اکبر۔ ہجرت نبوی سے ۵ سال قبل پیدا ہوئے،باپ نے حزن نام رکھا ؛لیکن آنحضرتﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو بدل کر سہل کردیا۔ اسلام ہجرت سے پیشتر حضرت سہلؓ کے والد سعد بن مالک نے مذہب اسلام قبول کرلیا تھا، بیٹے نے اسی باپ کے سایہ عاطفت میں پرورش پائی تھی۔ غزوات اور دیگر حالات آنحضرتﷺ کی تشریف آوریِ مدینہ کے وقت ان کا سن ۵ سال کا تھا دو برس کے بعد غزوہ بدر پیش آیا، اس وقت یہ ہفت سالہ تھے لڑائی سے قبل ان کے والد نے انتقال کیا اور حضرت سہلؓ کو یتیم چھوڑ گئے، آنحضرتﷺ نے لڑائی ختم ہونے کے بعداور مجاہدین کی طرح ان کے باپ کا بھی حصہ لگایا کیونکہ وہ جنگ کا عزم کرچکے تھے۔ غزوہ احد میں وہ اور لڑکوں کی طرح شہر کی حفاظت کررہے تھے،آنحضرتﷺ کو جب چشم زخم پہنچا اور دھویا گیا،اس وقت آپ کے پاس آگئے تھے۔ (مسند:۵/۲۳۴) ۵ھ میں غزوہ خندق ہوا، باایں ہمہ صغر سنی میں جوش کا یہ عالم تھا کہ خندق کھودتے اور مٹی اٹھا اٹھا کے کندھے پر لیجاتے تھے۔ (مسند:۵/۳۳۲) غزواتِ ما بعد میں بھی میدانِ جنگ کے قابل نہ ہوسکے، ۱۵ برس کاسن ہوا اور تیغ زنی کے قابل ہوئے تو خود سر ورِ عالمﷺ نے سفر آخرت اختیار فرمایا، (مسند ابی مبارک:۱۱۶) یہ ۱۱ھ کا واقعہ ہے ۔ ۷۴ھ میں حجاج بن یوسف ثقفی کا دست سیاست دراز ہوا تو ان کو بلا کر پوچھا کہ تم نے حضرت عثمانؓ کی مدد کیوں نہ کی؟ جواب دیا کی تھی "بولا" جھوٹ کہتے ہو، اس کے بعد حکم دیا کہ ان کی گردن پر مہر لگادی جائے، یہ عتاب ان بزرگوں کے ذلیل کرنے اور اثر زائل کرنے کے لئے کیا گیا تھا، حضرت انسؓ اورحضرت جابرؓ بن عبداللہ بھی اسی جرم میں ماخوذ تھے۔ وفات سن مبارک ۹۶ سال تک پہنچ چکا تھا آنحضرتﷺ کہ جمال الکمال کے دیکھنے والوں سے مدینہ خالی تھا دیگر صوبے بھی صحابہؓ کے سایہ سے عموما محروم ہوچکے تھے وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ مرجاؤں گا تو کوئی قال رسول اللہ کہنے والا باقی نہ رہے گا، آخر ۹۱ھ میں بزم قدس نبوی کی یہ ٹمٹماتی ہوئی شمع بھی بجھ گئی۔ فضل وکمال حضرت سہلؓ مشاہیر صحابہؓ میں ہیں،اکابر صحابہؓ کے فوت ہونے کے بعدان کی ذات مرجع انام بن گئی تھی،لوگ نہایت ذوق وشوق سے حدیث سننے آتے تھے۔ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اگرچہ صغیر السن تھے،تاہم آپ سے حدیث سنی تھی بعد میں حضرت ابی بن کعبؓ، عاصم بن عدیؓ ،عمرو بن عبسہؓ سے اس فن کی تکمیل کی،مروان سے بھی چند روایتیں لیں، اگرچہ وہ صحابی نہ تھا راویانِ حدیث اورتلامذہ خاص کی ایک جماعت تھی جن میں بعض کے نام یہ ہیں: حضرت ابوہریرہؓ ،حضرت ابن عباسؓ، حضرت سعید بن مسیب، ابو حازم بن دیناز زہری، ابو سہل صبحی،عباسؓ بن سہل(لڑکے تھے) وفاء بن شریح حضرمی ،یحییٰ بن میمون حضری عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی ذباب ،عمروبن جابر حضرمی۔ روایات کی تعداد ۱۸۸ ہے جن میں سے ۲۸ متفق علیہ ہیں۔ اخلاق حب رسول ﷺ کے نشہ میں چور تھے، آنحضرتﷺ ایک ستون کے سہارے کھڑے ہوکر خطبہ دیا کرتے تھے،ایک روز منبر کا خیال ظاہر فرمایا، حضرت سہلؓ اٹھے اور جنگل سے منبر کے لئے لکڑی کاٹ لائے۔ (مسند:۵/۳۳۷) ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کو بیر بضاعہ سے پانی پلایا تھا۔ (مسند:۵/۳۳۸) حق گوئی خاص شعار تھی،آل مروان میں سے ایک شخص مدینہ کا امیر ہوکر آیا،حضرت سہلؓ کو بلا کر کہا کہ علیؓ کو برا کہو، انہوں نے انکار کیا تو کہا کہ اچھا اتنا ہی کہدو کہ "خدا نعوذ باللہ) ابو تراب پر لعنت کرے،حضرت سہلؓ نے جواب دیا کہ یہ علیؓ کا محبوب ترین نام تھا اورآپﷺ اس نام سے بہت خوش ہوتے تھے اس کے بعد ابو تراب کی وجہ تسمیہ بتلائی تو اس کو بھی خاموش ہونا پڑا۔ (مسلم:۱/۳۲۶)