انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عربی ادب میں یہود کا حصہ یہود کی مادری زبان عبرانی تھی؛ مگرجزیرۂ عرب میں آکر ان کی زبان رفتہ رفتہ بالکل عربی ہوگئی تھی، ان میں عبرانی زبان مذہبی حیثیت سے اب بھی باقی تھی جس کوان کے علماء واحبار جانتے تھے، اس میں ان کی مذہبی کتابیں تھیں اور اسی زبان میں وہ ان کی تلاوت کرتے تھے؛ مگرعوام شاید اس قدر بھی عبرانی نہیں جانتے تھے: لَايَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّاأَمَانِيَّ۔ (البقرۃ:۷۸) ترجمہ:ان میں بعض ہیں جوکتاب کا علم نہیں رکھتے؛ مگرصرف خواہشات۔ بخلاف اس کے ان کی روزمرہ کی زبان اور ان کی شاعری کی زبان عربی تھی اور اسی میں وہ کاروبار اور معاہدہ ٔ صلح وجنگ کرتے تھے، یہ ضروری ہے کہ عبرانی زبان کی سیکڑوں ترکیبیں، مذہبی اصطلاحیں اور تمدنیومعاشرتی الفاظ ان کی زبان پر چڑھے ہوئے تھے جوان کے ذریعے سے عربی زبان میں داخل ہوئے، خود قرآن مجید میں ایسے متعدد الفاظ موجود ہیں جن کے متعلق مفسرین نے لکھا ہ کہ عبرانی زبان سے عربی میں آئے ہیں۔ مثلاً جر کا لفظ عربی ادب اور خود قرآن میں مستعمل ہے، عبرانی میں ابتداً اس کے معنی رفیق کے تھے پھریہ گروہ اور مذہبی فرقہ کے معنی میں استعمال ہونے لگا، اس کے بعد عالم کے معنی میں استعمال ہوا اور اس وقت عربی زبان میں اسی معنی میں مستعمل ہے؛ اسی طرح نسیئی کے لفظ کے متعلق بعض مستشرقین نے لکھا ہے کہ یہ عبرانی لفظ ہے، عبرانی میں الناسی، اس شخص کوکہتے ہیں جومہینوں کومقدم ومؤخر کرتا تھا، عربی مؤرخین لکھتے ہیں کہ عربوں میں نسیئی کا رواج سب سے پہلے بنوکنانہ میں شروع ہوا (ابن ہشام:۱/۴۵) اُوپرذکر آچکا ہے کہ بنوکنانہ میں یہودیت موجود تھی اس لیے ممکن ہے کہ یہ طریقہ انھوں نے یہودیوں سے سیکھا ہو اور پھرعربوں میں اس کورواج دیا ہو، اس خیال کی تائید مقریزی اور بیرونی کے بیان سے بھی ہوتی ہے، انھوں نے لکھا ہے کہ عمل کبسیہ اہلِ عرب نے یہود سے دوسوبرس قبلِ اسلام سیکھا تھا۔ (تاریخ الیہود، بحوالہ الآثار الباقیہ) لفظ آطاعم کے متعلق بھی بحث ہے کہ یہ خالص عربی لفظ ہے، یاعبرانی، اس لفظ کے جتنے عربی مشتقات ہیں ان سب میں ارتفاع، بلندی، حفاظت اور بند کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں () جواس بات کی دلیل ہے کہ یہ عبرانی سے عربی میں آیا ہے اسی لیے کہ عبری میں اطم تقریباً ان ہی مذکورہ معنوں میں مستعمل ہے، ظہور اسلام کے وقت یہ لفظ عام طور پرقلعوں اور اونچے ٹیلوں کے معنی میں بولا جاتا تھا؛ مگریہود خصوصیت سے اطم کوقلعہ کے علاوہ ان مقامات کے لیے بھی استعمال کرتے تھے جن میں وہ جمع ہوکر مشورہ کرتے تھے، یہ لفظ زیادہ ترشمالی حجاز میں مستعمل تھا، عرب کے دوسرے حصوں میں اس کا استعمال شاید نہیں تھا اور اگرتھا توبہت کم جواس بات کا ثبوت ہے کہ یہ یہود کے ذریعہ یہاں آیا، ان وجوہ کی بناء پراسے عبرانی کہنا زیادہ صحیح ہے، امام سیوطی رحمہ اللہ نے قرآن کے ان جملوں کوعبرانی سے ماخوذ بتایا ہے: كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ، اس کے معنی عبرانی میں: محاعنہم، ہیں (محمد:۲) أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ، کے معنی عبرانی میں رکن ہیں (الأعراف:۱۷۶) إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ، کے معنی ثبنا الیک ہیں (الأعراف:۱۵۶)۔ ان الفاظ کوبھی عبرانی الاصل بتایا گیا ہے: رمز، مرقوم، اوّاہ، یمٌ، حِطّۃ، اسباط، راعنا، بعیر، لینۃ، قیسیس، ابلیس، جھنم، شیطان۔ ان میں بعض لفظ ایسے ہیں جن کے ساتھ ایک دینی اصطلاح اور ایک تاریخ وابستہ ہے، ظاہر ہے کہ ان اصطلاحوں اور ان واقعات کی تفصیل سے زیادہ تریہود ہی واقف تھے، اس لیے اہلِ عرب ان کے متعلق سوالات کرتے ہوں گے اور وہ ان کی تشریح کرتے ہوں گے جس سے کتنے نئے واقعات اور کتنے نئے تصورات، کتنے جدید الفاظ سے عربی زبان کا دامن مالا مال ہوتا ہوگا اسی بناپر اہلِ عرب یہود کے بارے میں کہتے تھے: عِنْدَهُمْ عِلْمٌ لَيْسَ لَنَا۔ (سیرت ابنِ ہشام،إنْذَارُ الْيَهُودِ بِهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ وَلَمّا بُعِثَ كَفَرُوا بِهِ:۱/۲۱۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: تم لوگوں کے پاس علم ہے جس سے ہم بے بہرہ ہیں۔