انوار اسلام |
س کتاب ک |
ایک ہی مسجد میں ایک سے زیادہ بار جمعہ کے ادائیگی کی مخصوص صورت تکرارِ جماعت کے سلسلہ میں حنفیہ کے علاوہ دوسرے فقہاء کے مذہب کی تفصیل یہ ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جس مسجد میں کوئی امام مقرر ہووہاں اس امام کی جماعت کے علاوہ کوئی اور جماعت کرنا مکروہ ہے؛ اگرکئی ائمہ مقرر ہوں جوالگ الگ جماعتوں کوپڑھائیں، تواس صورت کے بارے میں مالکیہ کے نزدیک اختلاف ہے؛ لیکن راجح یہی ہے کہ یہ صورت بھی مکروہ ہے، جس مسجد میں کوئی باضابطہ امام مقرر ہو، اس میں دوبارہ جماعت مکروہ ہے؛ البتہ اگرمسجد تنگ ہے اور تمام لوگ ایک ساتھ نماز نہیں پڑھ سکیں توایک سے زیادہ جماعت کی گنجائش ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مقررہ امام کی اجازت سے ایک سے زیادہ جماعتیں کی جاسکتی ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں، مشہور محدث امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے امام احمد رحمہ اللہ کی رائے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فقہاء میں امام اسحاق رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے؛ نیز متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ اسی نقطہ نظر کے حامل ہیں، مشہور محدث امام بخاری رحمہ اللہ کا رحجان بھی یہی ہے، فقہاءِ احناف رحمہم اللہ اُصولی طور پرتکرار جماعت مکروہ قرار دیتے ہیں؛ چنانچہ علامہ کاسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَإِنْ صَلَّى فِيهِ أَهْلُهُ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ، أَوْبَعْضُ أَهْلِهِ يُكْرَهُ لِغَيْرِ أَهْلِهِ وَلِلْبَاقِينَ مِنْ أَهْلِهِ أَنْ يُعِيدُوا الْأَذَانَ وَالْإِقَامَةَ۔ (بدائع الصنائع:۱/۳۷۸) اس طرح اکثر فقہاء کا مسلک یہی ہے کہ تکرار جماعت کراہت سے خالی نہیں، مذاہب اربعہ میں احناف، مالکیہ اور شوافع کا یہی نقطۂ نظر ہے، حنابلہ جواز کے قائل ہیں اور شوافع جگہ کی تنگی کی صورت میں تکرارِ جماعت کوجائز قرار دیتے ہیں، جوحضرات تکرارِ جماعت کوجائز قرار دیتے ہیں اُن کی دلیل ایک روایت ہے کہ: ایک صاحب جماعت ختم ہونے کے بعد مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون اِن کے اجر میں اضافہ کرے گا؟یعنی کون ان کے ساتھ شریک ہوکر انہیں جماعت کا ثواب ہونچائے گا؟ بعض روایتوں میں ہے کہ ایک صاحب کھڑے ہوئے اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے؛ چنانچہ وہ ان کے ساتھ شریک ہوگئے اور ان صاحب نے مسجدِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جماعت سے نماز ادا کی۔ اس طرح بخاری رحمہ اللہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بارے میں نقل کیا ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک ایسی مسجد میں تشریف لائے جس میں نماز ہوچکی تھی تودوبارہ اذان واقامت کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ جولوگ تکرارِ جماعت کومکروہ قرار دیتے ہیں، ان کے پیشِ نظر وہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار کچھ لوگوں کے درمیان صلح کرانے تشریف لے گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوکر مسجد آئے تونماز ہوچکی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھرواپس آئے اور اہلِ خانہ کوجمع کیا اور نماز ادا فرمائی؛ نیز تکرارِ جماعت سے لامحالہ جماعت کی تعداد قلیل ہوگی؛ کیونکہ جب لوگ دیکھیں گے کہ بار بار جماعت ہوسکتی ہے توآنے میں تاخیر ریں گے اور اس طرح جماعت کی کثرت جوشریع تکا منشا ہے، فوت ہوکر رہ جائے گا؛ چنانچہ علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وَلِأَنَّ التَّكْرَارَ يُؤَدِّي إلَى تَقْلِيلِ الْجَمَاعَةِ؛ لِأَنَّ النَّاسَ إذَاعَلِمُوا أَنَّهُمْ تَفُوتُهُمْ الْجَمَاعَةُ فَيَسْتَعْجِلُونَ فَتَكْثُرُ الْجَمَاعَةُ، وَإِذَاعَلِمُوا أَنَّهَا لَاتَفُوتُهُمْ يَتَأَخَّرُونَ فَتَقِلُّ الْجَمَاعَةُ، وَتَقْلِيلُ الْجَمَاعَةِ مَكْرُوهٌ۔ (بدائع الصنائع:۱/۳۸۰) لِأَنَّ فِي تَكْرَارِ الْجَمَاعَة تَقْلِيلَهَا۔ (البحرالرائق:۱/۶۰۵) واقعہ ہے کہ جمہور کا نقطۂ نظر شریعت کے مزاج ومذاق اور جماعت کی مصلحت سے زیادہ قریب ہے۔ احناف کے مسلک کی تفصیل ہے کہ چند صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں بالاتفاق تکرارِ جماعت مکروہ نہیں: اوّل یہ کہ مسجد محلہ نہ ہو؛ بلکہ بازار یاشارع عام کی مسجد ہو، جس میں گزرنے والے نماز پڑھ لیا کرتے ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی مسجدوں میں متعین نمازی نہیں ہوتے؛ بلکہ حسب موقع گزرنے والے پڑھ لیتے ہیں، اس لیے اس سے کثرتِ جماعت متاثر نہیں ہوتی۔ دوسرے، اس مسجد میں بھی تکرارِ جماعت میں کوئی حرج نہیں ہے، جس کے لیے امام متعین نہ ہوا اور کچھ متعین لوگ مسجد میں نہ آیا کرتے ہوں؛ بلکہ کبھی کچھ لوگ، کبھی کچھ اور لوگ نماز پڑھتے ہوں؛ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: الْمَسْجِدُ إذَاكان له إمَامٌ مَعْلُومٌ وَجَمَاعَةٌ مَعْلُومَةٌ في مَحِلِّهِ فَصَلَّى أَهْلُهُ فيه بِالْجَمَاعَةِ لَايُبَاحُ تَكْرَارُهَا فيه بِأَذَانٍ ثَانٍ۔ (الفتاویٰ الہندیہ:۱/۸۳) تیسرے، اگرپہلی جماعت اہلِ محلہ ہی نے کی؛ لیکن اذان آہستہ اس طریقے پردی کہ دوسرے لوگ نہ سن سکیں تواس کے بعد دوبارہ جماعت کی جاسکتی ہے: جَمَاعَةٌ من أَهْلِ الْمَسْجِدِ أَذَّنُوا في الْمَسْجِدِ على وَجْهِ الْمُخَافَتَةِ بِحَيْثُ لم يَسْمَعْ غَيْرُهُمْ ثُمَّ حَضَرَ قَوْمٍ من أَهْلِ الْمَسْجِدِ ولم يَعْلَمُوا ماصَنَعَ الْفَرِيقُ الْأَوَّلُ فَأَذَّنُوا على وَجْهِ الْجَهْرِ ثُمَّ عَلِمُوا ماصَنَعَ الْفَرِيقُ الْأَوَّلُ فَلَهُمْ أَنْ يُصَلُّوا بِالْجَمَاعَةِ على وَجْهِهَا وَلَا عِبْرَةَ لِلْجَمَاعَةِ الْأُولَى۔ (فتاوی قاضی خان علی ہامش الفتاوی الہندی:۱/۷۸، محشی) چوتھی صورت، یہ ہے کہ مسجد محلہ ہی میں غیراہل محلہ نے پہلے اذان واقامت کے ساتھ جماعت کرلی ہو، تواب اہلِ محلہ کا دوبارہ جماعت کرنا مکروہ نہیں: يُكْرَهُ تَكْرَارُ الْجَمَاعَةِ فِي مَسْجِدِ مَحَلَّةٍ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ، إلَّاإذَا صَلَّى بِهِمَا فِيهِ أَوَّلًا غَيْرُ أَهْلِهِ۔ (ردالمحتار:۲/۲۸۸) پانچویں صورت یہ ہے کہ پہلی جماعت اذان کے ساتھ ہوئی ہو اور دوسری جماعت بغیراذان کے ہو اس کوحنیفہ نے بالاتفاق مباح قرار دیا ہے، تکرارِ جماعت کے جائز ہونے کی یہ صورتیں فقہاءِ حنفیہ کے نزدیک متفق علیہ ہیں، امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ اگردوسری جماعت تداعی اور اجتماعی کے طور پر نہ ہو تومکروہ نہیں؛ ورنہ مکروہ ہے، چنانچہ علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وَرُوِيَ عَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ إنَّمَايُكْرَهُ إذَاكَانَتْ الثَّانِيَةُ عَلَى سَبِيلِ التَّدَاعِي وَالِاجْتِمَاعِ، فَأَمَّا إذَالَمْ يَكُنْ فَلَا يُكْرَهُ۔ (بدائع الصنائع:۱/۳۸۹، محشی) ممکن ہے کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کا مقصد وہی ہوجومذکور ہوا ہے کہ دوسری جماعت اذان کے ساتھ مکروہ ہے، بغیر اذان کے نہیں؛ کیونکہ اذان تداعی کی واضح صورت ہے، امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے قول میں نسبتا زیادہ وسعت ہے اور وہ یہ ہے کہ اگرجماعتِ ثانیہ، جماعتِ اولیٰ کی ہیئت پرنہ ہو، توجماعتِ ثانیہ مکروہ نہیں، تغیرِہیئت سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلہ میں عام طور پریہ بات کہی گئی ہے کہ محراب اور امام کی جگہ سے ہٹ کردوسری جگہ امامت کی جائے؛ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کوفقہاء نے صحیح اور مفتی بہ قرار دیا ہے۔ جمعہ چونکہ شعائر دین کے درجہ میں ہے، اس لیے جمعہ کا بہرِحال اہتمام ہونا چاہئے، اس لیے فقہاء نے جمعہ کے قیام کے لیے بعض شرائط کے بارے میں تخفیف ورعایت میں کسی کوبھی کلام نہیں؛ لیکن اگرایک جگہ تمام لوگوں کے اجتماع میں دقت ہوتو فقہاء کہتے ہیں کہ متعدد جمعہ میں بھی کوئی حرج نہیں، علامہ ابنِ نجیم فرماتے ہیں: يَصِحُّ أَدَاءُ الْجُمُعَةِ فِي مِصْرٍ وَاحِدٍ بِمَوَاضِعَ كَثِيرَةٍ، وَهُوَقَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٍ، وَهُوَالْأَصَحُّ؛ لِأَنَّ فِي الِاجْتِمَاعِ فِي مَوْضِعٍ وَاحِدٍ فِي مَدِينَةٍ كَبِيرَةٍ حَرَجًا بَيِّنًا، وَهُوَمَدْفُوعٌ۔ (البحرالرائق:۲/۶۰۵) یہی بات فقہاءِ مالکیہ نے لکھی ہے: وَاعْلَمْ أَنَّ خَشْيَةَ الْفِتْنَةِ بَيْنَ الْقَوْمِ إذَااجْتَمَعُوا فِي مَسْجِدٍ تُبِيحُ التَّعَدُّدَ كَالضِّيقِ۔ (الشرح الصغیر:۱/۵۰۱) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک توایک شہر میں متعدد جمعہ جائز نہیں؛ لیکن اس کے باوجود متأخرین نے ازراہِ ضرورت متعدد جمعہ کی اجازت دی ہے؛ تاکہ جمعہ سے لوگ محروم نہ ہونے پائیں؛ اس طرح سجدہ توزمین پرہونا چاہیے؛ لیکن اگرجمعہ میں اژدھام کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو توفقہاء نے نمازیوں کی پشت پربھی سجدہ کرنے کی اجازت دی ہے: رَجُلٌ لَمْ يَسْتَطِعْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَنْ يَسْجُدَ عَلَى الأَرْضِ مِنَ الزِّحَامِ فَإِنَّہُ یَنْتَظِرُ حَتَّی یَقُوْمُ النَّاسُ، فَإِذَا رَأْی فَرْجَۃ سَجد وَإِنْ سَجد عَلَی ظَھْرِ الرَّجُلِ أَجْزَأَہُ۔ (الفتاویٰ قاضی خان علی ہامش الفتاوی الہندیہ:۱/۱۷۸، باب صلاۃ الجمعۃ، محشی) ان نظائر سے یہ بتانا مقصود ہے کہ شریعت میں اقامت جمعہ کی جواہمیت ہے، فقہاء نے اپنے اجتہادات میں اس کوبڑی اہمیت دی ہے اس لیے تکرارِ جماعت کی کراہت سے بڑھ کریہ ہے کہ کچھ مسلمان جمعہ کی سعادت سے محروم ہوجائیں؛ لہٰذا راقم الحروف کی رائے ہے کہ: (الف)اولاً تومسجد کے ذمہ داران اس بات کی کوشش کریں کہ جمعہ کے لیے مستقل طو رپرکوئی ہال حاصل ہوجائے۔ (ب)جب تک یہ سہولت حاصل نہ ہوتکرارِ جماعت ہی کے ذریعہ سہی، مسلمانوں کوجمعہ سے محروم نہ ہونے دیں؛ ورنہ اندیشہ ہے کہ اس سے ان کی دینی حالت پربہت ہی خراب اثر مرتب ہوگا۔ (ج)صورت یہ ہو کہ صرف پہلی جماعت سے پہلے اذان اور اقامت ہو، دوسری یاتیسری جماعت کے لیے اذان اور اقامت نہ کہی جائے؛ تاکہ اس قول کے مطابق کہ دوسری جماعت بغیر اذان واقامت کے دُرست ہے، تکرارِ جماعت دُرست قرار پائے۔ (د)پہلی جماعت میں امام جہاں کھڑا ہو، دوسری جماعت میں اس سے کسی قدر پیچھے ہٹ کرکھڑا ہو اور دوسری جماعت میں امام کی جوجگہ ہو، تیسری جماعت میں امام اس سے بھی ہٹ کرنماز پڑھائے؛ اس طرح تغیرِہیئت کی کیفیت پیدا ہوجائے گی، جوامام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے قول پرمکروہ نہیں ہے۔ (ہ)یہ بات بھی مناسب ہوگی کہ مسجد کا مقررہ امام آخری جماعت کی امامت کرے؛ تاکہ اس کا شمار اہلِ محلہ کی جماعت میں ہو اور پہلی جماعتوں کا شمار غیراہلِ محلہ کی جماعتوں میں ہو اور غیراہلِ محلہ کی جماعت کے بعد بھی اہلِ محلہ کی جماعت بالاتفاق دُرست ہے۔ تکرارِ جماعت کی یہ وہ صورتیں ہیں کہ احناف کے مسلک کی مذکورہ تفصیلات کے مطابق یہ کراہت کے دائرہ میں نہیں آتیں؛ لیکن ظاہر ہے کہ اصل یہ ہے کہ مسجد میں ایک ہی جماعت ہو، اس لیے اس کے لیے کوشش جاری رکھنی چاہئے اور جب تک یہ سہولت بہم نہیں پہونچے، تکرار جماعت کے ساتھ ہی سہی تمام آنے والوں کے لیے جمعہ کی سہولت برقرار رکھنا چاہیے کہ اس سے فریضئہ دین کی اہمیت لوگوں کے ذہن میں باقی رہے گی اور ان کے ذہنوں میں اپنی مذہبی شناخت بھی قائم رہے گی۔ (کتاب الفتاویٰ:۳/۷۲،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)