انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صحابہؓ کے عمل کے لیے لفظ سنت کا اطلاق حصین بن المنذر ابوساسان کہتے ہیں کہ میں حضرت عثمانؓ کے پاس موجود تھا،جب ولید کو حد مارنے کے لیے لایا گیا، آپ نے حضرت علی المرتضیٰؓ کو حکم دیا کہ وہ ولید کو کوڑے لگائیں،آپ ؓ نے اپنے بیٹے حضرت حسنؓ سے کہا کہ وہ لگائیں، انہوں نے عذر کیا تو آپ ؓ نے حضرت عبداللہ بن جعفرؓ (۸۰ھ ) سے کہا کہ ولید پر سزا جاری کریں وہ کوڑے لگاتے جاتے تھے اور حضرت علیؓ گنتے جاتے تھے،جب چالیس ہوگئے تو آپ ؓ نے فرمایا: بس! یہیں تک، اس کے بعد آپ ؓ نے (حضرت علیؓ نے) کہا: "جَلَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ وَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ وَعُمَرُ ثَمَانِينَ وَكُلٌّ سُنَّةٌ"۔ (صحیح مسلم:۲/۷۲۔سنن ابی داؤد:۲/۲۶۰۔سنن ابن ماجہ:۱۸۸) ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس کوڑوں کی سزادی حضرت ابوبکرؓ نے بھی چالیس کوڑے ہی لگوائے، حضرت عمرؓ نے اسی کوڑے لگوائے اوران میں سے ہر عمل اپنی جگہ سنت ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی اکابر صحابہ کے عمل کے لیے سنت کا لفظ استعمال ہوتا تھا اوریہ بات ان حضرات تزکیہ صفات میں عام تھی کہ صحابہ کا عمل بھی سنت میں شامل ہے اور یہ کہ امت میں ان کی پیروی کی جاتی رہے گی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سنت کا لفظ اس وسیع معنی میں استعمال کیا ہے،اپنی سنت کے ساتھ خلفاء راشدین کے عمل کوبھی سنت ٹھہرایا ہے،آپ نے فرمایا: "فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ"۔ (جامع ترمذی:۲/۹۲۔سنن دارمی:۲۶۔حدیث نمبر:۲۶۰۰، موقع الإسلام) ترجمہ: سو تم میں سے جو شخص اس وقت کو پائے سو اسے چاہئیے کہ میری سنت اورخلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ ان حضرات قدسی صفات کی یہ پیروی ازجہت خلافت تھی کہ اولوالامر کی پیروی مسلمانوں پرلازم ہے، نہیں آپ کا ان حضرات کے عمل کوسنت قرار دینا ازجہت صحابیت اور فیضِ رسالت سے براہِ راست تزکیۂ پائے ہوئے ہونے کی حیثیت سے تھا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ توخلیفہ نہ تھے، آپ نے توان کے بارے میں بھی پیروی کا حکم فرمایا، عبدالرزاق روایت کرتے ہیں: "کان الناس لایاتمون بامام اذاکان لہ وترولھم شفع وھو جالس یجلسون وھو قائم حتی صلی ابن مسعود وراء النبی صلی اللہ علیہ وسلم قائما فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان ابن مسعود سن لکم سنۃ فاستنوابھا"۔ (المصنف:۲/۲۲۹۔فتح القدیر لابن الہمام:۲/۱۲۵) (اس حدیث کی شرح کسی شارح نے کی ہو ایسا نہیں ملا یہ حدیث مصنف عبدالرزاق میں ہے) ترجمہ: جب لوگوں کی دو رکعت رہتی ہوں اور امام کی ایک اور وہ بیٹھا ہو تو یہ برابر بیٹھے رہتے اورامام کھڑے ہوکر اپنی رکعت پوری کرلیتا اور یہ پھر بھی بیٹھے رہتے یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے حضورؓ کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پوری کی حضور نے اس پرفرمایا بیشک ابن مسعودؓ نے تمہارے لیے ایک طریقہ واضح کیا ہے اس کی پیروی کرتے رہنا۔ علامہ ابن ہمام حضرت معاذ بن جبلؓ (۱۸ ھ) کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "قد سن لکم معاذ فاقتدوابہ"۔ (ایضا) ترجمہ:معاذ نے تمہارے لیے اسے سنت قائم کیا ہے سو تم اس کی پیروی کرو۔ حافظ ابن رجب حنبلی (۷۹۵ ھ) لکھتے ہیں: "والسُّنة هي الطريقة المسلوكةُ، فيشمل ذلك التمسُّك بما كان عليه هو وخلفاؤه الرَّاشدونَ مِنَ الاعتقادات والأعمال والأقوال، وهذه هي السُّنةُ الكاملةُ"۔ (جامع العلوم:۱۹۱، موقع صيد الفوائد) ترجمہ: اورسنت وہ راستہ ہے جس پر چلاجائے اوراس طریقے کو جس پر حضورﷺ اورخلفائے راشدینؓ چلتے رہے پکڑنے کا نام ہے عقائد میں اعمال میں بھی اور اقوال میں بھی یہی سنت کاملہ ہے۔ جو لوگ دنیا میں دین قائم کرنے کے لیے چنے جاچکے ہوں اورانہیں خدا تعالی نے آخری نبی کی صحبت قدسیہ کے لیے پیدا کیا ہوجودین کوآگے پہونچانے کے امین نبوی ہوں توہدایت اگران کے نقش پاسے نہ ملے گی تو اور کہاں سے ملے گی، سو ان کے نقش پاکی پیروی آئندہ ہر فرد امت پر لازم ٹھہری اوریہی لوگ حضورﷺ کے بعد صراط مستقیم کے عملی سالار تھے،حضرت عباد بن عباد الخواص الشامی لکھتے ہیں: "وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺ إِمَاماً لأَصْحَابِهِ، وَكَانَ أَصْحَابُهُ أَئِمَّةً لِمَنْ بَعْدَهُمْ"۔ (سنن دارمی:۲/۲۳۲،شاملہ) ترجمہ: حضور اپنے صحابہ کے امام تھے اورآپ کے صحابہ اپنے بعد میں آنے والے لوگوں کے امام تھے۔ امام ابن شہاب الزہری (۱۲۴ ھ) نے صالح بن کیسان کو صاف کہہ دیا تھا: "نکتب ماجاء عن اصحابہ فانہ سنۃ"۔ (تاریخ ابی الذرعۃ الدمشقی:۱/۲۱۴) ترجمہ: ہم صحابہ سے کی گئی مرویات بھی لکھیں گے؛ کیونکہ وہ بھی سنت ہیں۔