انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عیسائیوں کی ایک منظم سازش اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ ان بغاوتوں کے شروع میں امیر حکم عیسائیوں کوسزا دینےکے لیے فرانس میں داخل ہوا تھا،اورعیسائی افواج اس کے مقابلہ پر نہیں ٹھہر سکی تھیں، اس تین سا ل کے عرصہ میں کلیساؤں نے اپنی یتیم اور زبوں حالت کو محسوس کرکےمسلمانوں کے خطرے سے محفوظ رہنے کے لیے نہایت موزوں اور صحیح تدابیر سوچیں،تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سلسلہ جبل البرتات کےمغربی حصہ میں جہاں خلیج بسکی،صوبہ جلیقہ اور فرانس کی حدود ملتی ہے،ایک ریاست عیسائیوں کی ریاست ایسٹریاس کے نام سے قائم ہوچکی تھی، ایک زبر دست ریاست جبل البرتات کے مشرقی حصہ کے شمال اور د فرانس کے جنوب میں گاتھ قوم کے سرداروں نےاندلس سے خارج ہوکر قائم کرلی تھی،یہ ریاست خون طاقتور تھی اور ریاست ایکیو ٹین کے نام سے مشہور تھی،ادھر ملک فرانس میں سب سے زیادہ وسیع ملک پر ایک قدیمی سلطنت قائم تھی،جس کا بادشاہ شارلیمین تھا،اس کے علاوہ صوبہ برشلونہ،اراگون،اربونیہ ،اور خلیج بسکی کے جنوبی ساحل یعنی جلیقیہ وغیرہ میں سرکش عیسائیوں کی غا لب آبادی تھی،مسلمان برائے نام اس طرف کہیں کہیں آباد نظر آتے تھے،ان شماکی علاقوں کی حکومت ہمیشہ معرض خطر میں رہتی تھی،اور عیسائی قبائل جب کبھی مسلمان حاکموں کو کمزور دیکھتے تھےتو بغاوت پر آمادہ ہوجاتے یا آمادہ کیے جاسکتے تھے۔ سلطان حکم کو اندرونی بغاتوں کے فرو کرنےمیں مصروف دیکھ کرعیسائیوں نے ایک زبردست کونسل یا مجلس مشورت شہر ٹولور میں منعقد کی ،اس مجلس میں مذکوہ بالا تمام عیسائی امراء سب جمع ہوئےاورایک زبردست عیسائی عیسائی اتحاد مسلمانوں کے خلاف قائم کیا گیا،ایکیوٹین اور فرانس کےبادشاہوں میں صلح قائم ہوئی،اسی طرح ایسٹریاس کی ریاست نے جو اب تک سب سے الگ اور بے تعلق تھی اس اتحاد میں شرکت کی اورجبل البرتات کے جنوب اور اندلس کےشمال میں جہاں سرکش اور جنگ جو عیسائیوں کی غالب آبادی تھی ،عیسائی ریاستیں قائم کرنے کی تجاویز سوچی گئیں مسلمانوں نے بارہا جبل البرتات کو طے کیا،اور فرانس کےمیدانوں میں اپنے گھوڑے دوڑائے،لیکن فرانسیسیوں کو جبل البرتات کا عبور کرنا ہمیشہ دشوار اور نقصان رساں ثابت ہوا۔