انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت قیس ؓبن عاصم نام ونسب قیس نام ،ابو علی کنیت، نسب نامہ یہ ہے، قیس بن عاصم بن خالد بن مقربن عبید ابن مقاعس بن عمر بن کعب بن سعد بن زید بن مناۃ بن تمیم تمیمی منقری قیس اپنے قبیلہ کے سردار تھے اور زمانہ جاہلیت میں بڑے وقار تمکنت سے رہتے تھے،ایک مرتبہ انہوں نے اپنی جاہلی زندگی کا حال بتایا کہ میں نے اس زمانہ میں بھی کوئی برا کام نہیں کیااور نہ کبھی کسی تہمت سے متہم ہوا، ہمیشہ فوجی سواروں میں یا پنچایت کی مجلسوں میں یا مجرموں کی حمایت میں رہتا تھا۔ (اصابہ:۵/۲۵۸) البتہ لازمۂ امارت شراب بہت پیتے تھے،ایک دن بد مستی کی حالت میں اپنی لڑکی کے پیٹ کی شکنوں پرہاتھ ڈال دیا اورماں باپ کو نہایت فحش گالیاں سنائیں،شب ماہ تھی،چاند دیکھ کر اور ترنگ بڑھی،اول فول بکنے لگے اورمدہوشی کے عالم میں بادہ فروش کو ایک خطیر رقم دے ڈالی ،جب نشہ ہرن ہوا، تو لوگوں نے بد مستی کے واقعات سنائے، انہیں سن کر اس قدر نادم اورشرمسار ہوئے کہ اسی دن سے توبہ کرلی اور پھر کبھی شراب کو منہ نہیں لگایا،اشعارِ ذیل اس واقعہ کی یاد گار ہیں۔ (استیعاب:۲/۵۴۰) رایت الخمر صالحۃ وبیھا خصال تفسد الرجل الحلیما ترجمہ:میں شراب کو اچھی چیز سمجھتا تھا،لیکن اس میں بعض ایسے اوصاف ہیں ،جو حلیم اور سنجیدہ آدمی کے اخلاق بگاڑ دیتے ہیں۔ ملا واللہ اشربھا صحیحا ولا اشفی بھا ابدا سقیما ترجمہ: خدا کی قسم اب کبھی نہ اس کو صحت کی حالت میں پیونگا اورنہ بیماری میں دوا کے لیے استعمال کروں گا۔ اسلام ۹ھ میں تمیم کے وفد کے ساتھ مدینہ آئے اورآنحضرتﷺ کی دستِ مبارک پر مشرف باسلام ہوئے،آپ نے فرمایا یہ بادیہ نشینوں کے سردار ہیں،کچھ دنوں کے بعد امارتِ صدقہ کی خدمت سپرد ہوئی۔ (سیرت ابن ہشام) غزوات قبولِ اسلام کے بعد غالباً سب سے اول غزوۂ حنین میں شریک ہوئے،اس غزوہ میں فوج کے اس حصہ میں تھے، جس نے پہلے بنو ہوازن کو پسپا کردیا تھا، لیکن پھر مالِ غنیمت کی لوٹ میں شکست کھا گیا تھا۔ وصیت اور وفات بصرہ آباد ہونے کے بعد یہاں مستقل سکونت اختیار کرلی،یہیں مرض الموت میں مبتلا ہوئے،جب زندگی سے مایوسی ہوگئی تو لڑکوں کو بلا کر حسب ذیل وصیت کی : میرے بچو جب میں اس دنیا سے گذر جاؤں ،تو جو تم میں سب سے بڑا ہو اس کو سردار بنانا اوراپنے بزرگوں کا صحیح جانشین اور نمونہ بننے کی کوشش کرنا، اپنے چھوٹے کو سردارنہ بنانا، ورنہ تمہارے ہم چشم تم پر نکتہ چینی کریں گے، مجھ پر نوحہ نہ کرنا، رسول اللہ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے،مال کی صلاح وحفاظت مد نظر رکھنا،اس سے شرفاء کی شان بڑھتی ہے اورکمینوں سے استغنا رہتا ہے، اپنے اونٹوں کو بے محل نہ صرف کرنا، لیکن بر محل صرف کرنے میں بخل بھی نہ کرنا، کم اصلوں سے شادی نہ کرنا، ممکن ہے اس سے وقتی مسرت حاصل ہو ؛لیکن اس سے جو خرابی پیدا ہوگی وہ اس مسرت سے کہیں زیادہ نقصان رساں ہوگی،اپنے دشمن کی اولاد سے بچتے رہنا وہ اپنے بزرگوں کی طرح تمہاری دشمن ہوگی،مجھ کو ایسے مقام پر دفن نہ کرنا جہاں بکر بن وائل کا گذر ہو سکے،زمانۂ جاہلیت میں ان کے ساتھ میرے اختلاف اور جھگڑے رہ چکے ہیں، اس لیے خطرہ ہے کہ وہ انتقام میں میری قبر کھود ڈالیں گے اور تم اس کے انتقام میں ان کی دنیا اور وہ تمہاری آخرت برباد کریں گے، پھر کش سے ایک تیر نکال کر بڑے لڑکے کو دیا اورکہا اس کو توڑو اس نے توڑدیا، پھر دو تیر ایک ساتھ توڑنے کو دیے،اس نے کوشش کی مگر نہ توڑ سکا، یہ مشاہدہ کرانے کے بعد کہا کہ اتحاد واتفاق اورتشتت واختلاف میں تمہاری حالت اسی تیر کی طرح ہے،یعنی اگر متفرق ہوگےتو ہر شخص زیر کرلیگا اوراگر مل کر رہو گے تو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ (مستدرک حاکم :۳/۶۱۱،۶۱۲) اولاد وفات کے بعد ۳۲لڑکے یاد گار چھوڑے،ہزاروں کی تعداد میں مویشی تھے،جو صحرا نشینوں کی سب سے بڑی دولت ہے۔ (اصابہ:۵/۲۵۹) فضل وکمال گو قیس بہت آخر میں مشرف باسلام ہوئے،تاہم چند احادیث ان کے حافظہ میں محفوط تھیں، ان کے لڑکے حکیم اور احنف نے ان سے روایت کی ہے ،شاعر بھی تھے ،کلام کا نمونہ اوپر گذرچکا ہے۔ اخلاق نہایت عاقل و فرزانہ،حلیم الطبع اور فیاض تھے،جاہلیت کی حمیت میں اپنی لڑکی زندہ دفن کردی تھی،زمانہ اسلام میں اس کاکفارہ ادا کیا۔ (اصابہ:۵/۲۵۹) حلم طبیعت میں حلم غالب تھا،ایک مرتبہ ان کے بھتیجے نے ان کے ایک لڑکے کو مارڈالا،لوگ اس کو پکڑ کے مع مقتول کی لاش کے قیس کے پاس لائے،قیس نے بھتیجے کی اس شقادت پر کوئی انتقام نہیں لیا،بلکہ بحیثیت بزرگ کے اس کو نصیحت کرنے لگے کہ تم نے کتنا بُرا کام کیا، خدا اور رسول کے گنہگار ہوئے، اپنے چچیرے بھائی کو قتل کرکے قطع رحم کیا،خود اپنے کو اپنے تیر سے زخمی کرکے اپنا جتھا کمزور کیا یہ نصیحتیں کرکے دوسرے بیٹے سے کہا،ان کی مشکیں کھول دو اوراپنے بھائی کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرو اورمقتول لڑکے کی ماں کو اپنے پاس سے دیت ادا کی۔ (اسد الغابہ:۴/۲۲۰) تعمیل فرمان نبوی قیس نہایت دولتمند تھے،لیکن بہت سمجھ بوجھ کر خرچ کرتے تھے،ایک مرتبہ آنحضرتﷺ سے اپنی دولت کے متعلق چند سوالات کئے،آپ نے فرمایا،تم کو اپنا مال پسند ہے،یا اپنے موالی کا،عرض کیا اپنا مال، فرمایا تمہارا مال تو وہی ہے،جس کو کھاپی کر ختم کردو، پہن اوڑھ کر پرانہ کردو، دے لیکر برابر کردو، ورنہ وہ تمہارے موالی کا ہے عرض کی اگر زندہ رہا تو اونٹ کے گلے اپنی زندگی ہی میں ختم کردوں گا؛چنانچہ بڑا حصہ زندگی میں ختم کردیا۔ (مستدرک حاکم :۳/۶۱۲)