انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** رعایا کی آسائش کا انتظام حضرت ابوبکرؓ کے زمانے تک یہ معمول تھا کہ خراج وغیرہ کی جو رقم وصول ہوتی تھی، ہر شخص پر تقسیم کردی جاتی تھی اور اس میں غلام وآزاد کی کوئی تخصیص نہ تھی، ابوداؤد میں حضرت عائشہ سے روایت ہے۔ کان ابی یقسم للحروالعبد (ابو داؤد کتاب الخراج والامارۃ باب فی اقسم الفی) میرے باپ غلاموں اورآزاددونوں پرمال تقسیم کردیتے تھے۔ لیکن حضرت عمرؓ نے اس کے ساتھ لوگوں کی خوراک بھی مقرر فرمائی، اول اول جب یہ انتظام قائم کرنا چاہا تو دونوں وقت ایک ایک جریب آٹا پکوایا اور ۳۰،۳۰ آدمیوں کو کھلایا، سب کو کافی ہوا تو ماہوار مرد، عورت اورغلام سب کے لئے دو جریب آٹا مقرر کیا، اعلان عام کے لئے پیمانہ ہاتھ میں لے کر منبر پر چڑھے اورفرمایا کہ میں نے تم لوگوں کے لئے اس قدر ماہوار خوراک مقرر کردی ہے جو شخص اس کو گھٹائے گا اس کو خدا سمجھے گا، یہ طریقہ اس قدر مقبول عام ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی کو بددعا دیتا تھا تو کہتا تھا کہ خدا تمہاری جریب موقوف کردے یعنی تمہیں موت دے۔ (فتوح البلدان،۴۶۵،۴۶۶) حضرت عمرؓ نے وظائف میں خاص موقعوں پر قومیت کی تفریق و امتیاز کو بھی بالکل مٹادیا؛ چنانچہ ایک بار مقام جابیہ میں گئے، وہاں چند عیسائی جذامیوں کو دیکھا تو حکم دیا کہ بیت المال سے ان کے وظیفے مقرر کردیئےجائیں،(فتوح البلدان،صفحہ ۱۳۶) ایک بار ایک بوڑھےیہودی کو بھیک مانگتے دیکھا تو اس کو خود اپنے گھر لائے، اورجو کچھ ہوسکا دیا، پھر بیت المال کے خزانچی کو لکھ بھیجا کہ اس قسم کے اشخاص کا لحاظ رکھا جائے، قرآن مجید میں صدقہ کے جو حصہ دار ہیں ان میں فقراء سے مسلمانوں اور مساکین سے اہل کتاب مراد ہیں۔ (کتاب الخراج للقاضی ابی یوسف،صفحہ ۷۲) ان کے علاوہ جو معزز لوگ کسی وجہ سے مفلوک الحال ہوجاتے تھے ان کے لئے بھی وہ وظیفے مقرر فرمادیتے تھے؛ چنانچہ ایک موقعہ پر خود فرمایا۔ انما فرضت لقوم اجحفت بھم الفاقۃ وھم سادۃ عشائر ھم لماینوبھم من الحقوق (مسند ابن حنبل ،جلد۱،صفحہ ۴۵) میں نے چند فاقہ زدہ لوگوں کے لئے وظیفہ مقرر کردیےہیں جو اپنے قبیلہ کے سردار تھے؛ لیکن قومی حقوق کی گراں باری نے ان کو مفلوک الحال بنادیا۔ شیرخوار بچوں کے وظیفے حضرت عمرؓ نے تمام مجاہدین کے بچوں کے لئے دس دس درہم وظیفے مقرر فرمائے،پہلے یہ معمول تھا کہ بچے دودھ چھوڑتے تھے تو ان کے وظیفے جاری کئےجاتے تھے، لیکن بعد کو جب معلوم ہوا کہ لوگ حصول وظیفہ کے لئے قبل از وقت بچوں کا دودھ چھڑا دیتے ہیں تو حضرت عمرؓ نے عام اعلان کروادیا کہ قبل از وقت بچوں کا دودھ نہ چھڑاؤ ہم روز ولادت ہی سے بچوں کے وظائف مقرر کردیں گے، حضرت عمرؓ کے بعد اورخلفاء نے اس کو اس قدر ترقی دی کہ اس میں وراثت جاری ہوتی تھی، حضرت عمرؓ بن عبدالعزیزؓ نے وراثت کے طریقے کو موقوف کرنا چاہا، لیکن پھر رک گئے۔ حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے زمانہ میں حضرت عمرؓ کا وہی قدیم نظام پھر قائم کردیا، یعنی بچے جب دودھ چھوڑدیتے تھے، اس وقت سے ان کے وظیفے جاری کرتے تھے ،اخیر میں عبدالملک ابن مروان نے اس فیاضانہ طریقے کو کلیۃ موقوف کردیا۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۴۶۴) لاوارث بچوں کے وظیفے حضرت عمرؓ نے ۱۸ھ میں یہ حکم دیا کہ جو لاوارث بچے شاہراہ وغیرہ پر پڑے ہوئے ملیں ان کے دودھ پلانے اور دیگر مصارف کا انتظام بیت المال سے کیا جائے، چنانچہ یہ وظیفہ سو درہم سے شروع ہوتا تھا پھر سال بسال اس میں ترقی ہوتی جاتی تھی ،(یعقوبی ،جلد۲،صفحہ۱۷۱ فتوح البلدان،صفحہ ۴۵۷) موطا امام مالک میں ہے کہ قبیلہ بنو سلیم کا ایک شخص اسی قسم کا ایک بچہ اٹھا لایا تو حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ اس کو لے جاؤ، اس کے نفقہ کا بار ہم پر رہے گا۔ (موطا امام مالک کتاب الاقضیہ باب القضاء فی المنبوذ) قحط کا انتظام قحط رعایا کے لئے سب سے مصیبت ہے، ایک بار حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قحط پڑا، تو انہوں نے اپنے اوپر گھی اور دودھ کو حرام کرلیا اوررعایا کے آرام و آسایش کے لئے ہر ممکن تدبیر کی، تمام امر اوعمال کو لکھ بھیجا کہ اہل مدینہ کی مدد کریں ،چنانچہ حضرت ابو عبیدہ نے چار ہزار اونٹ غلہ سے لدے ہوئے بھیجے۔ (طبری صفحہ ۲۵۷۶) حضرت عمروبن العاصؓ گورنر مصر کو لکھا کہ خراج میں جو غلہ وصول ہو وہ مدینہ کو روانہ کیا جائے؛ چنانچہ انہوں نے روغن زیتون اور ۲۰جہاز غلہ روانہ کیا جن میں کم و بیش ہر جہاز میں ۳ ہزار ارب غلہ تھا، حضرت عمرؓ متعدد اکابر صحابہ کے ساتھ بذات خود ملاحظہ کے لئے بندرگاہ پر گئے جس کا نام جار تھا وہاں پہنچ کر ان غلوں کے رکھنے کے لئے دو مکان تعمیر کرائے اورحضرت زید بن ثابتؓ کو حکم دیا کہ قحط زدوں کے نام لکھے جائیں؛ چنانچہ جن لوگوں کے نام لکھے گئے ان کو ایک ایک چک ملتی تھی جس پر حضرت عمرؓ کی مہر ہوتی تھی۔ (فتوح البلدان،صفحہ ۲۲۳ و یعقوبی جلد۲ صفحہ ۱۷۷) اس کے علاوہ ہر جگہ سے اونٹ گیہوں اور روغن زیتون منگواکر بدووں میں تقسیم کیا ،جب یہ تمام سرمایہ ختم ہوچکا تو یہ انتظام کرنا چاہا کہ جو لوگ صاحب مقدرت ہوں ان کے گھروں میں جس جس قدر آدمیوں کی تعداد ہو اس تعداد میں محتاجوں کی کفالت ان کے متعلق کی جائے ؛کیونکہ ایک آدمی کا کھانا دو شخصوں کی سدرمق کے لئے کافی ہوتا ہے؛ لیکن اس سے پہلے بار ان رحمت کی دعا فرمائی اوراللہ تعالی نے اس کو قبول کرلیا اس لئے اس انتظام کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ (ادب المفردات باب المواسات فی اسنۃ والمجاعۃ) رعایا کی شکایتوں سے واقف ہونے کے وسائل ہمارے سلاطین وامراء میں کتنے لوگ ہیں جن کے کان بے کس افراد کی فریاد سننے کے متحمل ہوسکتے ہیں؟لیکن صحابہ کرام ہمہ وقت رعایا کی آرام و آسائش کی فکر میں مصروف رہتے تھے، اس لئے ان کے درد و دکھ سے واقفیت حاصل کرنے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرتے تھے حضرت ابوبکرؓ نے اپنے مختصر عہد خلافت میں حج کے موقع پر تمام لوگوں سے عام طورپر پوچھا لیا تھا کہ کسی کو کوئی شکایت تو نہیں؟ ،(کنز العمال،جلد۳ صفحہ ۱۳۱) حضرت عمرؓ نے اس کو اور بھی ترقی دی اورخفیہ طور پر متعد لوگوں کو مقرر فرمایا جوان تک تمام جزئیات کی خبریں پہنچاتے رہتے تھے ،کنز العمال میں ہے۔ کان لعمر عیون علی الناس (کنز العمال،جلد۶،صفحہ۳۱۴) حضرت عمرؓ نے لوگوں پر جاسوس مقرر فرمائے تھے۔ تمام امراوعمال کو حکم دیا تھا کہ لوگوں کے سامنے دروازے بند نہ کریں ؛تاکہ ہر شخص بلا روک ٹوک اپنی شکایتیں پیش کرسکے، اخیر میں تمام ملک کے دورہ کا بھی ارادہ کیا تھا؛ لیکن شام کے سواشہادت نے دوسرے مقامات کے دورہ کا موقع نہیں دیا۔ حضرت عثمانؓ کو رعایا کی خبر گیری کا اس قدر خیال تھا کہ عین خطبہ کی حالت میں لوگوں سے ان کے حالات اوربازار کا نرخ دریافت فرماتے تھے۔ موذی جانوروں کا قتل مہذب سلطنتیں رعایا کے آرام وآسائش کا جو انتظام کرتی ہے ان میں ایک یہ ہے کہ موذی جانوروں کو ملک سے فنا کرنے کی کوشش کرتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے جانوروں کے قتل پر انعام دیا جاتا ہے ،صحابہ کرام نے بھی اس قسم کا انتظام کیا تھا، نصیبین میں بچھو بکثرت تھے جس سے وہاں کے مسلمانوں کو اذیت پہونچتی تھی وہاں کے عامل نے حضرت امیر معاویہؓ کی خدمت میں اس کی شکایت کی تو انہوں نے لکھا کہ تمام شہر کے لوگوں پر بچھوؤں کی ایک تعداد مقرر کردی جائے کہ ہر رات کو پکڑ لائیں،چنانچہ وہ لوگ ان کے پاس پکڑ کر لاتے تھے اور وہ مار ڈالتے تھے ، اس طرح بچھوؤں کی تعداد میں بہت کچھ کمی ہوگئی۔ (معجم البلدان ذکر نصیبین) سجستان میں بکثرت سانپ رہتے تھے،جب حضرت عبدالرحمان بن سمرہؓ نے حضرت عثمان ؓ کے عہد خلافت میں اس کو بصلح فتح کیا توچونکہ نیولے اورخارپشت سانپ کو کھاجاتے ہیں اس لئے معاہدہ صلح اس شرط پر کیا کہ کوئی شخص ان دونوں جانوروں کو نہ مار سکے گا۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ حضرت عبداللہ بن عامرؓ)