انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مصعبؓ بن عمیر کی مدینہ میں کامیابی مصعبؓ بن عمیر نے مدینہ میں پہنچ کر نہایت کوشش وجانفشانی اورقابلیت کے ساتھ تبلیغ کا کام شروع کردیا،خدا تعالی ٰ کے فضل وکرم سے مدینہ کے لوگوں کی سعادتِ ازلی کا اظہار ہوا اور قبیلے کے قبیلے اسلام میں داخل ہونے شروع ہوئے،مدینہ میں قبیلۂ اوس کی شاخوں میں قبیلۂ بنو عبدالاشہل اورقبیلہ بنو ظفر بہت مشہور وطاقتور تھے،سعد بن معاذ قبیلہ بنو عبدالاشہل کے سردار ہونے کے علاوہ تمام قبائل کے سردارِ اعظم تھا۔ اسید بن حضیر قبیلہ بنو ظفر کے سردار تھے، ان کا باپ جنگ لباب میں تمام قبائل کا سردرِ اعظم تھا اور اسی لڑائی میں مارا گیا تھا جس کے بعد قبائل اوس میں بہت بااثر اورچوٹی کے سردار مانے جاتے تھے،اسعد بن زرارہؓ جن کے مکان پر مصعب بن عمیرؓ مقیم تھے،سعدؓ بن معاذ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ ایک روز مصعب بن عمیرؓ اورسعد بن زرارہؓ بنی عبدالاشہل کے محلوں میں چاہِ مرق پر بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے،سعد بن معاذؓ کو ان کا اپنے محلہ میں آنا اورتبلیغِ اسلام کرنا ناگوار تھا، سعد نے اسید بن حصیر کو بلا کر کہا کہ اسعد چونکہ میرا خالہ زاد بھائی ہے اس لئے میں تو ذرا احتیاط کرتا ہوں،تم جاؤ اور ان کو سختی سے کہہ دو کہ ہمارے محلوں میں کبھی نہ آیا کریں،یہ ہمارے لوگوں کو بہکانے اوربے دین بنانے کے لئے آتے ہیں،اسید تلوار لے کر چلے اور اسعد ومصعب کے پاس پہنچ کر اُن کو بُرا بھلا کہا اورنہایت سختی ودرشتی کے ساتھ ڈانٹا ،مصعب بن عمیرؓ نے کہا: اگر آپ ذرا بیٹھ جائیں اور ہماری دو باتیں سُن لیں تو کوئی نقصان آپ کا نہ ہوگا، اس کے بعد پھر آپ جو چاہیں حکم فرمائیں ،اسید‘‘بہت اچھا’’ کہہ کر بیٹھ گے مصعب نے اسلام کی حقیقت بیان کی اور قرآن مجید پڑھ کر سُنایا،اسید خاموش سنتے رہے جب مصعب سُنا چکے تو اسید نے کہا کہ میں اسلام قبول کرتا ہوں؛چنانچہ اُسی وقت اُن کو مسلمان بنایا گیا ،اسید نے کہا کہ ایک شخص اور ہے اگر وہ بھی مسلمان ہوگیا تو پھر کوئی تمہاری مخالفت نہ کرے گا، میں جاکر ابھی اس کو بھی تمہارے پاس بھیجتا ہوں ؛چنانچہ اسید وہاں سے اُٹھ کر سعد بن معاذکے پاس آئے،سعد پہلے ہی سے اسید کے منتظر تھے،پوچھا بتاؤ کیا کہہ آئے؟ اسید نے کہا ان دونوں نے وعدہ کرلیا ہے کہ تمہاری منشاء کے خلاف کچھ نہ کریں گے،لیکن وہاں ایک اورحادثہ پیش آگیا،بنو حارث کے چند نوجوان آگئے،وہ اسعد بن زرارہؓ کو قتل کرنا چاہتے تھے،یہ سنتے ہی سعد بن معاذ کھڑے ہوگئے اور تلوار لے کر وہاں پہنچے ،دیکھا تو اسعداور مصعب دونوں اطمینان سے بیٹھ ہوئے ہیں،یہ دیکھ کر سعد کو شبہ گزرا کہ اسید نے مجھ کو دھوکے سے یہاں بھیجا ہے کہ میں بھی ان کی باتیں سُنوں،یہ خیال آتے ہیں سعد نے دونوں کو گالیاں دینی شروع کیں اور اسعد سے کہا کہ مجھ کو صرف رشتہ داری کا خیال ہے ورنہ تمہاری کیا مجال تھی کہ ہمارے محلے میں آکر لوگوں کو بہکاتے،مصعب نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیے میں کچھ عرض کرتا ہوں، اگر میری بات معقول ہو تو آپ قبول فرمائیے ورنہ رد کردیجئے۔ سعد اپنی تلوار رکھ کر بیٹھ گئے مصعب نے سعد کو بھی وہی باتیں سنائیں جو اسید کو سنا چکے تھے سعدؓ بھی اسی وقت مسلمان ہوگئے اور واپس آتے ہی اپنے قبیلہ کے تمام لوگوں کو جمع کرکے کہا کہ تم مجھ کو کیا سمجھتے ہو،سب نے ایک زبان ہوکر کہا کہ آپ ہمارے سردار ہیں اورآپ کی رائے ہمیشہ قابلِ عمل ہوتی ہے،سعد نے کہا کہ جب تک تم مسلمان نہ ہوجاؤ میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں یہ سنتے ہی تمام بنو عبدالاشہل مسلمان ہوگئے،اسی طرح مدینہ کے دوسرے قبائل میں بھی اسلام پھیلتا رہا،یہ نبوت کا تیرھواں سال تھا، ادھر مصعب بن عمیر کو کامیابی حاصل ہورہی تھی، ادھر مکہ میں قریش کے مظالم مسلمانوں کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتے جاتے تھے،۱۳ نبوی کا ماہ ذی الحجہ آیا تو مدینہ سے مصعب بن عمیرؓ ۷۲ مرد اوردو عورتوں کے مسلم قافلہ کولے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے،مدینہ کے مسلمانوں نے اس قافلہ کو اس لئے بھی بھیجا تھا کہ زیارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ والوں کی طرف سے مدینہ میں تشریف لانے کی درخواست پیش کرے۔