انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
دوخطبوں کے درمیان ہاتھ اُٹھا کردُعا مانگنا درست ہے؟ خطیب، جمعہ وعیدین کے دوخطبوں کے درمیان جلسہ کرتا ہے، اس وقت حاضرین ہاتھ اُٹھا کردُعا مانگتے ہیں، اس جلسہ میں کوئی دُعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، غایۃ الاوطار میں اس مسئلہ کی تحقیق کرتے ہوئے لکھا ہے، تنبیہ! آج کل یہ دستور ہورہا ہے کہ خطیب جب خطبہ اوّل کوپڑھ کربیٹھتا ہے تولوگ ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگنے لگتے ہیں، اس لیے اس مسئلہ کی تحقیق اس جگہ مناسب معلوم ہوتی ہے، ابوداؤد میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوخطبے پڑھا کرتے تھے، اس طرح کہ منبر پرچڑھ کربیٹھتے جب تک کہ مؤذن فارغ ہو؛ پھرکھڑے ہوکر خطبہ پڑھتے، پھربیٹھتے اور کلام نہ کرتے اور پھرکھڑے ہوتے اور خطبہ پڑھتے، طحطاوی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس جلوس میں کوئی دُعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہوئی، شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح ہدایہ میں فرمایا کہ خطیب کودرمیان دوخطبوں کے جدائی کے لیے جلسہ اتنا کرنا چاہیے کہ تمام اعظا اس کے قرار پاجائیں اور اس جلسہ میں دُعا کرنا بدعت ہے اور سعنانی نے لکھا ہے کہ ہاتھ اُٹھانا دُعا کے لیے دوخطبوں کے درمیان میں غیرمشروع ہے اور جامع الخطیب میں ہے کہ ہاتھ اُٹھانا دُعا کے لیے دوخطبوں کے بیچ میں حرام ہے اور شیخ عبدالحق نے شرح مشکوٰۃ میں حدیثِ مذکورہ بالا کے ذیل میں لکھا ہے کہ کلام نہ کرتے، اس کے یہ معنی کہ نہ دُعا مانگتے، نہ دُعا کے سوا اور کوئی بات کرتے اور یہ جوحدیث میں آیا ہے کہ جمعہ میں ساعتِ دُعا کے قبول ہونے کی امام کے منبر پرچڑھنے کے وقت سے نماز کے پورا ہونے تک ہے، توملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ یہی وقت ہے کہ غیرامام کواس وقت میں حرام ہے اور دُعا سے مراد وہ دُعا ہے جوامام سب مسلمانوں کے لیے پڑھتا ہے، خطبہ اور نماز کے اندر پس اس سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ امام یاسننے والے جلسہ کے اندر ہاتھ اُٹھا کردُعا مانگیں، الخ۔ (غایۃ الاوطار:۱/۳۷۳۔ شامی:۱/۷۷۲، باب الجمعۃ) لہٰذا اگرمانگنا ہی چاہیں تودل سے بغیرہاتھ اُٹھائے مانگیں زبان سے نہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۶/۱۲۸، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی۔ فتاویٰ محمودیہ:۸/۲۸۵،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۵/۵۹، مکتبہ دارالعلوم دیوبند، یوپی)