انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ام کلثومؓ کی وفات(شعبان۹ہجری) حضور اکرمﷺ کی صاحبزادی حضرت اُم کلثومؓ زوجہ حضرت عثمان ؓ بن عفان نے وفات پائی، آپ کو حضرت اسماؓ بنت عمیس، حضرت صفیہؓ بنت عبدالمطلب، اُم عطیہ نے غسل دیا ، حضور ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی ، قبر میں حضرت ابو طلحہؓ بروایت دیگر حضرت علیؓ ، فضل بن عباس اور اسامہؓ اترے، حضور ﷺ قبر کے کنارے بیٹھے اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، اس موقع پر یہ بھی فرمایا کہ اگر میری دس لڑکیاں ہوتیں تو یکے بعد دیگرے عثمان ؓبن عفان کے نکاح میں دیتے رہتا ۔ وفدِ ثقیف (رمضان ۹ھ) ابن اسحاق کا بیان ہے کہ حضور اکرم ﷺماہِ رمضان میں تبوک سے واپس مدینہ تشریف لائے اور اسی ماہ ثقیف کا وفد بھی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، (ایک اور روایت کے مطابق حضور ﷺ اواخر شعبان یا اوائل رمضان میں مدینہ واپس ہوئے) حضور اکرم ﷺ جب غزوۂ طائف سے فارغ ہوکر مدینہ تشریف لارہے تھے تو عروہؓ بن مسعود ثقفی جو طائف کے رئیس تھے حضور ﷺ کے پیچھے تلاش میں نکلے اور آپﷺ کے مدینہ پہنچنے سے قبل ہی راستہ میں آپﷺ سے مل کر اسلام قبول کرلیا اور واپس جاکر اپنی قوم میں تبلیغ کرنے کی درخواست کی؛ لیکن حضور ﷺ نے فرمایاکہ ثقیف والے تمہیں قتل کرڈالیں گے؛ لیکن انھوں نے کہا وہ انھیں باکرہ عورتوں سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں اس لئے وہ ایسا نہیں کریں گے، چنانچہ انھوں نے اپنے مقام واپس ہوکر اپنے مکان کے شہ نشین سے قوم کو اسلام کی دعوت دی ؛لیکن قوم نے ان پر تیروں کی بارش کردی اور وہ ایک تیر لگنے سے شہید ہوگئے، انھوں نے مرتے وقت وصیت کی کہ محاصرہ طائف میں جو مسلمان شہید ہوچکے ہیں ان کے پہلو ہی میں دفن کئے جائیں، چنانچہ شہداء کے ساتھ ہی دفن کیاگیا، حضور اکرمﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا: ان کی مثال اپنی قوم میں وہی ہے جو صاحب یٰسین کی اپنی قوم میں ہے۔ عروہؓ بن مسعود کے قتل کے بعد بنو ثقیف نے چند ماہ تک توقف کیااور بعد مشورہ انھوں نے خیال کیا کہ عربوں سے جنگ کرنے کی ان میں طاقت نہیں ہے ، اسی لئے انھوں نے بیعت کرلی اور اسلام قبول کرلیا، پھر انھوں نے بنو ثقیف کے دوسرے رئیس عبدیالیل سے گفتگو کرکے انھیں حضورﷺ کی خدمت میں جانے کی درخواست کی؛ لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ واپسی کے بعد میرا بھی وہی حشر ہوگا جو عروہ کا ہواتھا(عروہ اور عبدیالیل دونوں ہم عمر تھے ) عبدیالیل سے یہ جواب سننے کے بعد بنو ثقیف نے ان کے ساتھ اپنے دو اور آدمی حکم بن عمرو بن وہب بن معتب اور شرحبیل بن غیلان بن سلمی بن معتب ، بنو مالک سے عثمان بن ابی العاص بن بشر بن عبد دہمان ، اخو بن یسار، اوس بن عوف اور نمیر بن خرشہ بن ربیعہ اخو بنوالحارث کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ، ان سب کے سردار طائف کے رئیس عبدیالیل تھے، اس طرح یہ چھ افراد کا وفد مدینہ پہنچ کر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، انھیں مسجد کے ایک گوشہ میں خیمہ نصب کرواکر ٹھہرا گیا، نماز اور خطبہ کے وقت یہ لوگ موجود رہتے تھے گو خود شریک نہیں ہوتے تھے، آنحضرت ﷺ کا معمول تھا کہ خطبہ میں اپنا نام نہیں لیتے تھے ، ان لوگوں نے آپس میں تذکرہ کیا کہ محمدﷺ ہم سے تو اپنی پیغمبری کا اقرار لیتے ہیں؛ لیکن خطبہ میں خود اپنی پیغمبری کا اقرار نہیں کرتے، آنحضرت ﷺ نے سنا تو فرمایا کہ "میں سب سے پہلے شہادت دیتا ہوں کہ میں فرستادۂ الٰہی ہوں " (شبلی نعمانی) اس وفد میں عثمان بن ابی العاص سب سے کم عمر تھے ، ارکان وفد جب حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو بچہ سمجھ کر انھیں قیام گاہ میں چھوڑ آتے، عثمان گو کم سن تھے مگر سب سے زیادہ تیز فہم اور ماہر تحقیق تھے ، ان کا معمول تھا کہ جب دن کو ارکان وفد قیلولہ کرتے تو یہ چپکے سے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور قرآن مجید اور مسائل اسلام سیکھتے، حضرت ابوبکرؓ نے ان کے بارے میں فرمایا:یا رسول اﷲ در حقیقت میں اس لڑکے کو ان لوگوں میں تفقہ فی الاسلام اور تعلیم قرآن کا سب سے زیادہ حریص پایا۔ حضور اکرم ﷺ بعد نماز عشاء ان کے پاس تشریف لے جاتے او رتبلیغ اسلام فرماتے جس میں زیادہ تر مکّہ میں قریش کے ہاتھوں جواذیتیں اٹھانی پڑی تھیں وہ بیان فرماتے، بالآخر ان لوگوں نے اسلام لانے پر آمادگی ظاہر کی لیکن یہ شرائط پیش کیں : ۱) زنا ہمارے لئے جائز رکھا جائے کیونکہ ہم میں سے اکثر مجرد رہتے ہیں اس لئے ان کو اس سے چارہ نہیں ، ۲) ہماری قوم کا تما م کاروبار اور ذریعہ معاش سود ہے اس لئے سود خواری جائز رکھی جائے، ۳) شراب سے نہ روکا جائے اس لئے کہ ہمارے شہر میں کثرت سے انگور پیدا ہوتا ہے اوریہ ہماری بڑی تجارت ہے، حضور اکرم ﷺ نے ان تینوں شرائط کو نا منظور فرمایا، آخر کار انھوں نے شرائط واپس لے لیں مگر ان کے معبود یعنی لات کے بارے میں جو طائف کا سب سے بڑا بت تھا حضور ﷺ سے دریافت کیا ، حضور ﷺ نے فرمایاکہ وہ بت توڑ دیا جائے گا، یہ سن کر وہ حیران ہوئے اور کہا کہ اگر ان کے بت کو ہاتھ لگایاجائے تو وہ تمام شہر کو تباہ کردے گا ، اس پر حضرت عمرؓ بول اٹھے کہ تم لوگ کس قدر جاہل ہو اس لئے کہ منات صرف ایک پتھر ہے ، انھوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ ہم منات کو ہاتھ نہیں لگاسکتے آپ ﷺ جو چاہیں کریں، حضور ﷺ نے ان کی درخواست منظور کرلی، انھوں نے نماز ، زکوٰۃ اور جہاد سے مستثنی کرنے کی بھی درخواست کی جس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ نماز روزانہ پانچ دفعہ فرض ہے جس سے استثنی ناممکن ہے؛ لیکن زکوٰۃ سال بھر کے بعد واجب ہوتی ہے اور جہا د فرض کفایہ ہے ہر شخص پر واجب نہیں اور جب ہو بھی تو اس کے خاص مواقع ہیں روز کا کام نہیں، اسی وجہ سے اس وقت ان لوگوں کو ان باتوں کے لئے مجبور نہیں کیاگیا اور یہ سمجھا گیا کہ جب وہ اسلام قبول کرلیں گے تو رفتہ رفتہ خود ہی زکوٰۃ بھی دینے لگیں گے اور جہا د بھی کریں گے۔ بت خانہ کا انہدام جب ارکان وفد واپس ہوئے تو حضور اکرم ﷺ نے ابو سفیان بن حرب اور مغیرہ بن شعبہ کو لات کے بت کدے کے انہدام کے لئے بھیجا، مغیرہ نے طائف پہنچ کر بت خانہ کو منہدم کرنا چاہا تو ثقیف کی عورتیں برہنہ سر روتی ہوئی نکل پڑیں اور کہہ رہی تھیں: (ترجمہ) لوگوں پر روو کہ پست ہمتوں نے اپنے بتوں کو دشمنوں کے سپرد کردیا اور معرکہ آرائی نہ کرسکے۔