انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** شہروں کی آبادی امیر معاویہؓ نے اپنے عہد میں مستقل شہر آباد کرائے اوربعض پرانے اجڑے شہر بسائے ،مرغش شام کا قدیم اجڑا ہوا شہر تھاامیر معاویہؓ نے اس کو دوبارہ تعمیر کرا کے بسایا۔ (فتوح البلدان:۱۹۶) ان کے عہد میں جو سب سے بڑا شہر آباد ہوا، جو اپنی مختلف خصوصیات کے لحاظ سے تاریخ اسلام میں مشہور ہے، وہ قیروان ہے،امیر معاویہؓ کے زمانہ میں عقبہ بن نافع فہری نے افریقہ کے بڑے بڑے شہر فتح کئے اور ہزاروں بربری اسلام لائے؛ لیکن یہ سخت فتنہ پرست اوربغاوت پسند تھے، جب تک ان کے سر پر فوجی قوت مسلط رہتی اس وقت تک مطیع و منقاد رہتے اور جیسے ہی ہٹتی مرتد ہوکر باغی ہوجاتے تھے، اس لئے عقبہ نے یہاں ایک شہر آباد کرکے مسلمانوں کے بسانے کا قصد کیا،تاکہ روز روز کی بغاوت کا خطرہ جاتارہے؛چنانچہ انہوں نے ساحل سے ہٹ کر اس کے لئے ایک جنگل منتخب کیا تاکہ رومیوں کے بحری حملوں سے محفوظ رہے یہ جنگل نہایت گھنا اور درندوں اور مسموم کیڑوں کا مسکن تھا، عقبہ نے اسے کٹو اکر بسایا، وسط شہر میں دارالامارۃ بنوایا، اورچاروں طرف مسلمانوں کے محلے آباد کیا ایک جامع مسجد تعمیر کی رفتہ رفتہ اس شہر نے اتنی ترقی کی کہ شمالی افریقہ کا مرکز بن گیا۔ (معجم البلدان ذکر "قیروان") جب کسی قوم کا اخترا قبال ترقی پذیر ہوتا ہے تو اس کے متعلق عجیب وغریب محیر العقول داستانیں زبان زدخاص وعام ہوجاتی ہیں، مسلمانوں کے عہد اقبال کے اس محیر العقول داستانیں زبان زدخاص وعام ہوجاتی ہیں، مسلمانوں کے عہد اقبال کے اس قبیل کے سینکڑوں واقعات نے بھی تاریخی شہرت حاصل کرلی ہے،ان میں قیروان کی تاسیس کے سلسلہ کا ایک واقعہ بھی لائق ذکر ہے، جس وقت عقبہ نے اسے بسانے کا ارادہ کیا اس وقت یہاں کا جنگل اتناگھنا اور ہیبتناک تھا کہ بڑے بڑے خونخوار درندے اژدہے اس میں بھرے ہوئے تھے اوران کے نکالنے کی کوئی صورت نہ تھی لیکن جو قوم ترقی پذیر ہوتی ہے اس کا سکہ انسان سے لے کر حیوان تک پر یکساں چلتا ہے،یہی قصہ اس جنگل کے مکینوں کے ساتھ پیش آیا، عقبہ بن عامر نے جنگل کے پاس آواز لگائی کہ ہم لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھی اوران کی امت ہیں اور تمہیں حکم دیتے ہیں کہ کل تک تم سب جنگل خالی کردو ورنہ قتل کردیئے جاؤ گے،اس الٹی میٹم پر جتنے درندے اژدھے اوردوسرے خوفناک جانور تھے وہ سب اپنے اپنے بچوں کو لے کر قطار درقطار نکلنے لگے اورجنگل بالکل خالی کردیا،گویہ واقعہ افسانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ،لیکن اس سے اس وقت مسلمانوں کے اوج اقبال کا ضرور پتہ چلتا ہے۔