انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فضائل ومناقب علم وفضل اسلام سے قبل عرب میں لکھنے پڑھنے کا چنداں رواج نہ تھا؛چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ آدمی ایسے تھے جو لکھنا جانتے تھے،حضرت عمر ؓ نے اسی زمانہ میں لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا تھا،(بلاذری صفحۃ ۴۷۷) حضرت عمر ؓ کے فرامین خطوط توقیعات اورخطبے اب تک کتابوں میں محفوظ ہیں،ان سے ان کی قوت تحریر،برجستگی کلام اور زورتحریر کا اندازہ ہوسکتا ہے،بیعت خلافت کے بعد جو خطبہ دیا اس کے چند فقرے یہ ہیں: اللھم انی غلیظ فلینی،اللھم انی ضعیف فقونی الاوان العرب جمل انف وقد اعطیت خطامہ الاوانی حاملہ علی المحجۃ "اے خدا میں سخت ہوں تو مجھ کو نرم کر،میں کمزور ہوں مجھ کو قوت دے،ہاں عرب والے سرکش اونٹ ہیں جن کی مہارمیرے ہاتھ میں دیدی گئی ہے ؛لیکن میں ان کو راستہ پر چلا کر چھوڑوں گا۔" قوت تحریر کا اندازہ اس خط سے ہوسکتا ہے جو حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے نام لکھا گیا تھا، اس کے چند فقرے یہ ہیں: اما بعد فان القوۃ فی العمل ان لا توخروا عمل الیوم لغد فانکم اذا فعلتم ذلک قدارکت علیکم اعما لکم فلم تدروا ایھاتا خذون فاضعتم "اما بعد!مضبوطی عمل کی یہ ہے کہ آج کا کام کل پر نہ اٹھا رکھو، ایساکروگے تو تمہارے بہت سے کام جمع ہوجائیں گے،پھر پریشان ہوجاؤگے کہ کس کو کریں اورکس کو چھوڑیں،اس طرح کچھ بھی نہ ہوسکے گا۔" شاعری کا خاص ذوق تھا اورشعرائے عرب کے کلام پر تنقیدی نگاہ رکھتے تھے،مشاہیر میں سے زہیر کے کلام کو سب سے زیادہ پسند کرتے تھے، کبھی کبھی خود بھی شعر کہتے تھے،( ابوعلی الحسن بن رشیق نے کتاب العمدہ میں ان کے اشعار نقل کئے ہیں) لیکن اس کی طرف زیادہ شغل نہ تھا۔ فصاحت وبلاغت کا یہ حال تھا کہ ان کے بہت سے مقولے ضرب المثال بن گئے جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں، علم الانساب میں بھی یدطولی ٰ حاصل تھا، یہ علم کئی پشتوں سے ان کے خاندان میں چلاآتا تھا، ان کے والد خطاب مشہور نساب تھے،جاحظ نے لکھا ہے کہ جب وہ انساب کے متعلق کچھ بیان کرتے تھے تو اپنے باپ کا حوالہ دیتے تھے،(کتاب البیان والتبیین ج۱ صفحۃ ۱۱۷)معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچ کر عبرانی زبان بھی انہوں نے سیکھ لی تھی، مسند دارمی میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ توریت کا نسخہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور پڑھنا شروع کیا،وہ پڑھتے جاتے تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہوتا جاتا ہے،(مسنددارمی : ۲۶) اس سے قیاس ہوتا ہے کہ عبرانی زبان سے اس قدر واقف ہوگئے تھے کہ توریت کو خود پڑھ سکتے تھے۔ حضرت عمر ؓ فطرۃ ذہین،طباع اورصائب الرائے تھے،اصابت رائے کی اس سے زیادہ اورکیا دلیل ہوسکتی ہے کہ ان کی بہت سی رائیں مذہبی احکام بن گئیں، اذان کا طریقہ ان کی رائے کے موافق ہوا، اسیران بدر کے متعلق جو رائے انہوں نے دی وحی الہی نے اسی کی تائید کی، شراب کی حرمت، ازواج مطہرات ؓ کے پردہ اورمقام ابراہیم کو مصلےٰ بنانے کے متعلق حضرت عمر ؓ نے نزول وحی سے پہلے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو رائے دی تھی۔ (تاریخ الخلفاء : ۱۲) آپ کو بارگاہ نبوت میں جو خاص تقرب حاصل تھا،اس کے لحاظ سے قدرۃ ان کو شرعی احکام اورعقائد سے واقف ہونے کا زیادہ موقع ملا،طبیعت نکتہ رس واقع ہوئی تھی اس لئے آئندہ نسلوں کے لئے اجتہاد اوراستنباط مسائل کی وسیع شاہراہ قائم کردی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی شرعی مسائل پر غور وفکر کیا کرتے تھے اور جب کوئی مسئلہ خلاف عقل معلوم ہوتا تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کرتے تھے، سفر میں قصر کا حکم دے دیا گیاتھا؛لیکن جب راستے مامون ہوگئے تو حضرت عمر ؓ نے دریافت کیا کہ اب سفر میں یہ حکم کیوں باقی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ خدا کا انعام ہے۔"مسائل دریافت کرنے میں مطلقاً پس وپیش نہیں کرتے تھے اور جب تک تشفی نہ ہوجاتی ایک ہی مسئلہ کو باربار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے تھے،کلالہ کے مسئلہ کو جو نہایت دقیق اورمختلف فیہ مسئلہ ہے،باربار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا،آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،سورۂ نساء کی آخری آیت تمہارے لئے کافی ہے۔ (تفسیر ابن جریر ج۶ صفحۃ ۲۵) نہایت غوروتوجہ کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے،ہر ایک آیت پر مجتہدانہ حیثیت سے نگاہ ڈالتے تھے،ایک دن صحابہ ؓ کے مجمع میں اس آیت کے معنی پوچھے اَیَوَدُّ اَحَدُکُمْ اَنْ تَکُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ لوگوں نے کہا واللہ اعلم،حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا کہ اس میں ایک کام کرنے والے کی تمثیل ہے،چونکہ جواب ناتمام تھا،حضرت عمر ؓ نے اس پرقناعت نہ کی ؛لیکن عبداللہ بن عباس ؓ اس سےزیادہ نہ بتاسکےحضرت عمر ؓ نےفرمایا: یہ اس آدمی کی مثال ہےجس کو خدا نےدولت ونعمت دی کہ خدا کی بندگی بجا لاے مگراس نے نافرمانی کی،تو اس کےاچھے اعمال بھی برباد کردئیے جائیں گے۔ (بخاری ج۲ : ۶۵۱) قرآن مجید سے استدلال میں بڑی مہارت رکھتے تھے،عراق کی فتح کے بعد یہ بحث پیدا ہوئی کہ ممالک مفتوحہ مجاہدین کی ملکیت اور وہاں کے باشندے ان کے غلام ہیں حضرت عمر ؓ کا خیال تھا کہ مقام مفتوحہ کسی شخص یا ایک بہت سے مخصوص اشخاص کی ملکیت نہیں ہیں ؛بلکہ وقف عام ہیں اوراستدلال میں یہ آیت پیش کی،وَمَا اَفَاء اللہُ علی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُرْیٰ بالآخر سب نے اس کی تائید کی اور اسی پر فیصلہ ہوا،حضرت عمر ؓ کی مرفوع روایات کی تعداد سترسے زیادہ نہیں ہے؛لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ وہ صرف اس قدر احادیث سے واقف تھے،درحقیقت انہوں نے اپنے عہد خلافت میں جس قدر احکام صادر فرمائے ہیں وہ سب احادیث ہی کے ماخوذ ہیں ،یہ دوسری بات ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں لیا ہے اور نام نہ لینے کی وجہ یہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی قول کو منسوب کرنے میں نہایت محتاط تھے جب تک کے ہر لفظ پر یقین نہ ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان فرمائی ہے اس وقت تک ہرگز ہر گز زبان سے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ نہیں نکالتے تھے،یہی وجہ تھی کہ وہ خود بھی بہت کم احادیث روایت کرتے تھے اور دوسروں کو بھی کثرت روایت سے روکتے تھے،علامہ ذہبی حضرت عمر ؓ کے حالات میں لکھتے ہیں: وقد کان عمر من دجلہ یخطیٔ الصاحب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یامرھم ان یقلوالروایۃ من نبیھم (تذکرۃ الحفاظ ج ۱ تذکرہ عمرؓ) اورحضرت عمر ؓ اس ڈرسے کہ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے میں غلطی نہ کریں ان کو حکم دیتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم روایت کریں محدث کا سب سے بڑا فرض روایات کی تحقیق وتنقید اورجرح وتعدیل ہے،اگرچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بھی اپنے عہد میں روایت کے قبول کرنے میں ثبوت اورشہادت کا لحاظ رکھا؛لیکن حضرت عمر ؓ کو اس میں بہت زیادہ غلو تھا اور جب تک روایت و درایت دونوں حیثیت سے اس کا ثبوت نہ پہنچتا ،قبول نہ کرتے،اس کی مثالیں تفصیل کےساتھ مذہبی خدمات کے سلسلہ میں مذکور ہوچکی ہیں،اس لئے یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ فقہ کا سلسلہ بھی درحقیقت حضرت عمر ؓ کا ہی ساختہ پرداختہ ہے ان سے اس قدر فقہی مسائل منقول ہیں کہ اگر جمع کئے جائیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے، استنباط احکام اورتفریع مسائل کے لئے بھی انہوں نے ایک شاہراہ قائم کردی تھی،مختلف فیہ مسائل کے طے کرنے کے لئے اجماع صحابہ جس کثرت سے حضرت عمر ؓ کے عہد میں ہوا پھر نہیں ہوا۔