انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بنیادی اصول قرآن کی شرعی حیثیت قرآن مجید کو ایسے وقت میں نازل کیا گیا، جب کہ معاشرہ کے اندر بہت سی خرابیاں جنم لےچکی تھیں اور بڑی حد تک اس میں پختگی بھی آگئی تھی، جن کی اصلاح بہت ضروری تھی، قرآن پاک جن اہم اصلاحی ہدایات ومضامین پر مشتمل ہے، انہیں ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے: (۱)تکمیل شریعت (۲)نسل انسانی سے نفرت وتعصب کو دور کرکے اسے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا (۳)مذہبی اختلافات کا خاتمہ (۴)کتب سابقہ کے برحق ہونے کی تصدیق اور ان کی غلطیوں کی اصلاح (۵)تکمیل انسانیت (۶)گمشدہ توحید کو دوبارہ قائم کرنا (۷)اللہ تعالیٰ کے ازلی ارادہ کی تکمیل:جس میں انسانوں کے لیے رہنمائی موجود ہو (اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۲۳۹) اسی کے ساتھ مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ اگر جھگڑا ہوجائے یاکوئی اور معاملہ درپیش ہوتو سب سے پہلے قرآن پاک کی طرف رجوع کیا کرو اور ایسا ہونا بھی چاہیے؛ کیونکہ وہ خدا کا نازل کردہ دستورِحیات ہے، جس سے کسی حال میں صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا ہے؛ چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ"۔ (النساء:۵۹) ترجمہ:پس اگر کسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو تو اس امر کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالہ کردیا کرو؛ اگرتم اللہ پر یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ (ترجمہ تھانویؒ) یعنی اگرتم میں اور "اولوالامر" میں باہم اختلاف ہوجائے کہ حاکم کا یہ حکم اللہ اور رسول کے حکم کے موافق ہے یامخالف، تواس کو کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کی طرف رجوع کرکے طے کرلیا کرو کہ وہ حکم فی الحقیقت اللہ اور رسول کے حکم کے موافق ہے یامخالف اور جوبات محقق ہوجائے اسی کو بالاتفاق مسلم اور معمول بہ سمجھنا چاہیے اور اختلاف کو دورکردینا چاہیے؛ اگرتم کواللہ اور قیامت کے دن پر ایمان ہے؛ کیونکہ جس کو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان ہوگا وہ ضرور اختلاف کی صورت میں اللہ اور رسول کے حکم کی طرف رجوع کرےگا اور ان کے حکم کی مخالفت سے بے حد ڈرےگا، جس سے معلوم ہوگیا کہ جو اللہ اور رسول کے حکم سے بھاگے گا وہ مسلمان نہیں؛ اس لیے اگردومسلمان آپس میں جھگڑیں، ایک نے کہا:چلو شرع کی طرف رجوع کریں، دوسرے نے کہا میں شرع کو نہیں سمجھتا یامجھ کو شرع سے کام نہیں تو اس کو بیشک کافر کہیں گے۔ (فوائد عثمانی برترجمہ شیخ الہندؒ، النساء:۵۹) مذکورہ آیت اور فوائد تفسیری سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب اللہ کی کتنی ضرورت ہے اور اس کی کتنی اہمیت ہے کہ اس کے ذریعہ معاملہ کو حل کرنے کاحکم ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے کسی بھی معاملہ میں کتاب اللہ کی طرف رجوع ہونا چاہیے؛ پھرکسی دوسری چیز کی طرف؛ چنانچہ علامہ شہر ستانی (متوفی:۵۴۸ھ) فرماتے ہیں کہ اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ جب کوئی شرعی مسئلہ پیش آئے؛ خواہ وہ حلال سے متعلق ہو یاحرام سے اور اس میں اجتہاد کی ضرورت پڑے تو سب سے پہلے قرآن پاک سے اس کی ابتداء کرنی چاہیے؛ پس اگر اس سے رہنمائی حاصل ہوجائے توپھر دوسری طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (الملل والنحل:۱/۱۳۶) حضرت عمرفاروقؓ نے قاضی شریح کے نام جوخط لکھا تھا اس میں یہ مذکور ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے توکتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرو اگراس معاملہ کا فیصلہ کتاب اللہ میں مذکور نہ ہو تب دوسری طرف دیکھا کرو۔ حضرت ابن مسعودؓ کا فرمان ہے:"تم میں سے کسی کے سامنے کوئی مقدمہ درپیش ہوتووہ اس کا کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرے اگراس کا فیصلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو وہ رسول اکرمﷺکی احادیث کے مطابق حکم دے"۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے جب کوئی بات دریافت کی جاتی تھی تو آپ اس کا جواب کتاب اللہ کے مطابق دیتے تھے، ان واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی کتاب کا درجہ سنت سے پہلے (بلکہ تمام ادلۂ شرعیہ پر مقدم) ہے اور عقل وفطرت کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ (حیات امام ابن القیم:۲۵۸) ان تمام امور پر روشنی ڈالنا مقصود نہیں ہے اور نہ ہی ہمارا یہ موضوع ہے، ذیل میں ہم صرف اس بات کا جائزہ لیں گے کہ قرآن پاک ایک دستورِ حیات ہے اور فقہی احکامات کی تعیین میں اسے اولین ماخذ ہونے کی حیثیت ہے۔ مضامین قرآن قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ درجِ ذیل مضامین کو بیان کیا ہے اور وہ یہ ہیں: (۱)جزائے ایمان کے مباحث (۲)عبادات کے مباحث (۳)حسنات وسیئات کا بیان (۴)قصص وحکایات کا بیان (۵)نجاتِ حقیقی اور اس کے حصول کے ذرائع کا بیان (۶)رسولِ کریمﷺ کے سوانح اور آپﷺ کی نبوت کے دلائلِ کاملہ کا بیان (۷)خصائص قرآن کا بیان (۸)اسلام کی حقیقت اور اس کی صداقت پر دلائل قاطعہ کا بیان (۹)کفروشرک کے تفصیلی احوال (۱۰)اور مظاہر قدرت کا بیان۔ (اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۲۳۹) حکیم الاسلام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے مضامین قرآنی کی بہت ہی جامع تقسیم کی ہے، جوپانچ قسموں پر مشتمل ہے: (۱)علم الاحکام یعنی عبادات، معاملات اور معاشرتی وسیاسی مسائل؛ نیزعلمی زندگی کے متعلق احکام وہدایات۔ (۲)علم المخاصمہ یعنی یہود ونصاریٰ، مشرکین ومنافقین اور مذاہب باطلہ کی تردید اور اسلام کی تائید اور حقانیت کے ثبوت پر مشتمل آیات۔ (۳)علم التذکیر بایات اللہ یعنی اللہ کی نعمتوں، قدرتوں اور اس کے نوازشات وانعامات، نیزجنت جیسی آرامگاہ میں قیام کا تذکرہ اور مجرموں کی سزاؤں پرمشتمل آیات۔ (۴)علم التذکیر بالموت، یعنی وہ آیات جوموت اور مابعدالموت، حساب کتاب اور نیک اور بُرے اعمال کے بدلے پر مشتمل ہیں۔ (۵)علم التذکیر بایام اللہ، یعنی وہ آیات جو سابقہ امتوں کی معاشرتی ومعاملاتی حالات، انبیاءؑ کی تعلیم سے اعراض وسرکشی پرعذاب خداوندی وغیرہ، یہ سب امت محمدیہﷺ کی عبرت وموعظت کے لیے تفصیل کے ساتھ مذکورہ ہیں۔ (الفوزالکبیر:۲) حجیت قرآن قرآن پاک دوسری سابقہ کتابوں کے مقابلہ میں قیامت تک دین کی اساس کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے، جس کا ہمیں اللہ نے مضبوطی سے تھامنےکا حکم دیا؛ چنانچہ ارشادِ باری ہے: "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"۔ (آل عمران:۱۰۳) ترجمہ:اورمضبوط پکڑےرہو اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کو اس طور پر کہ (تم سب) باہم متفق بھی رہو۔ (ترجمہ تھانویؒ) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلِہِ"۔ (مشکوٰۃ:۳۱) ترجمہ:میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑ رہا ہوں، جب تک تم اس کو تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہو گے:ایک کتاب اللہ دوسری سنتِ رسول۔ مذکورہ آیت اور حدیث سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قرآن پاک دین وشریعت کی اصل اساس ہے اور یہی تمام ادلہ میں سب سے مقدم اور سب سے محکم ہے، قرن اوّل سے ہی اس سے احکامِ شرعیہ کا استخراج ماخذ اوّل کی حیثیت سے کیا جاتا ہے، آپﷺ نے حضرت معاذؓ کو جب یمن کی جانب قاضی بناکر بھیجا تھا تو اُس وقت آپﷺ نے اُن سے پوچھا تھا، اے معاذؓ جب تمھیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتو کس چیز سے فیصلہ کروگے؟ تو معاذؓ نے جواباً عرض کیا:کتاب اللہ سے؛ پھرآپﷺ نے پوچھااگراس مسئلہ کا حل قرآن میں نہ مل سکا تو؟ آپؓ نے فرمایا احادیث سے؛ پھرآپﷺ نے پوچھا اگر اُس میں بھی نہ ملے تو؟ آپؓ نے عرض کیا "اجتہد برائی" اپنی اجتہاد سے اس مسئلہ کا حل نکال لونگا اورساتھ ہی فرمایا "ولاالو" حق کی تلاش میں لاپرواہی اختیار نہ کرونگا۔ (ابوداؤد:۲/۵۰۵) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ادلہ اربعہ میں قرآن کو اولین ماخذ کی حیثیت حاصل ہے، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کے ساتھ حدیث بھی ضروری ہے جس کی وجہ سے آپﷺ نے معاذؓ کے مزاجِ دین سے واقفیت اور شریعت سے مکمل طور پر مطلع ہونے سے خوشی کا اظہار فرمایا اور خدا کا شکر بجالاتے ہوئے فرمایا: "الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يَرْضٰی رَسُولؑ اللَّهِ"۔ (ابوداؤد، باب اجتہاد الرأی فی القضاء، حدیث نمبر:۳۱۱۹) ترجمہ:تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو اس بات کی توفیق دی کہ اس سے اس کا رسول راضی ہے۔ زمانۂ رسالت کے بعد بھی دورِخلافت اور عام صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) اور فقہاء کا یہی معمول رہا ہے کہ مسائل کے استخراج میں کتاب اللہ کو مقدم رکھتے تھے؛ پھرسنتِ رسول اللہ کو، اس لیے پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ مسائل کے استخراج میں اولیت کتاب اللہ کو حاصل ہے؛ پھرسنتِ رسول اللہ کو ہے۔ شیخ محمد خضری بک لکھتے ہیں کہ کتاب اللہ قطعی حجت ہے ،جس کو مضبوطی سے تھامنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا واجب ہے۔ (تاریخ التشریع الاسلامی:۱۹) قرآن کی حجیت پر مثال کے طور پر صرف ایک آیت اور دوحدیثیں پیش کی گئی ہیں؛ ورنہ اس کے علاوہ بہت سی آیات اور احادیث کتاب اللہ کی حجیت پر دال ہیں، جنھیں بغرضِ اختصار قلم انداز کیا جاتا ہے؛ نیزاس پر تاریخی شواہد بھی موجود ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن حکیم کو قانون کا اولین ماخذ بنایا، نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ کے عہد میں قرآن حکیم سے مکمل طور پر استفادہ کیا جاتا رہا، چوروں کے ہاتھ کاٹے گئے، زانیوں کوکوڑے لگائے گئے، شراب پینے والوں پرتعزیرنافذ ہوئی، بدکرداروں کو ملک بدر کیا گیا، نکاح وطلاق نیز وراثت کی تقسیم کے فیصلے قرآن حکیم کے احکام کے مطابق کئے گئے، ان سب سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے یہاں ابتداء ہی سے، قرآن حکیم قانون کا اصلی اور بنیادی ماخذ تھا؛ البتہ اتنی بات قابل تسلیم ہے کہ قرآن حکیم اصولوں کی کتاب ہے اور اس میں جملہ جزئیات کا احاطہ نہیں کیا گیا اور قرآن حکیم کوقانونی ماخذ بنانے کے لیے جن کلیات کی ضرورت تھی، وہ بعد میں مرتب ہوئے اور آج تک مرتب ہورہے ہیں، آج بھی اگر کوئی جدید مسئلہ درپیش ہو اور قرآنِ حکیم کی کسی آیت سے کوئی کلیہ بنایا جاسکے تو وہ ہمارے لیے ویسے ہی قابلِ عمل ہوگا، جیسے امام شافعیؒ یاامام ابوحنیفہؒ کا قائم کردہ کوئی کلیہ قابلِ عمل ہوتا ہو۔ اسی لیے مسلمانوں کے یہاں ایک عام اصول رہا کہ ایسی کوئی بات تسلیم نہیں کی جائیگی جوقرآن حکیم کے احکام یااس کی روح کے خلاف پائی جائے۔ (اسلام اور مستشرقین:۲/۱۴) قرآن کا فقہی اسلوب بیان قرآن میں جہاں اصلاح، عقیدہ، عبرت وموعظت کی آیتیں ہیں ،وہیں فقہی احکام سے متعلق بے شمار آیات ہیں، کبھی توامر کے صیغے سے فرضیت کا حکم دیا گیا ہے: "وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ"۔ (البقرۃ:۴۳) ترجمہ:اور قائم کرو نماز کو (یعنی مسلمان ہوکر) اور دوزکوٰۃ کو۔ یہاں پر نماز وزکوۃ کو صیغہ امر سے بیان کیا گیا؛ مگرشرعاً یہ دونوں احکام فرض کے قبیل سے ہیں اور کبھی تو ماضی کے لفظ (کتب) سے فرضیت ثابت کی جاتی ہے جیسے: "كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ"۔ (البقرۃ:۱۷۸) تم پر (قانون) قصاص فرض کیا جاتا ہے۔ "كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ"۔ (البقرۃ:۱۸۳) تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔ اورکبھی مضارع کے لفظ سے وجوب کا حکم ثابت ہوتا ہے، جیسے: "وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ"۔ (البقرۃ:۲۲۸) ترجمہ:اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو (نکاح سے) روکے رکھیں۔ (ترجمہ تھانویؒ) اس آیت میں مطلقہ عورتوں کو عدت کے گذارنے کا حکم دیا گیا ہے، جوواجب ہے اور کبھی انجام کار اور نتیجہ کے خراب ہونے کی وعید سناکر حکم دیا جاتا ہے، جیسے: "وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ"۔ (النساء:۹۳) ترجمہ:اور جومرد چوری کرے اور جوعورت چوری کرے سوان دونوں کے (داہنے) ہاتھ (گٹے) پر سے کاٹ ڈالو۔ (ترجمہ تھانویؒ) کبھی توصراحتاً ممانعت اور نہی کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: "وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ"۔ (الانعام:۱۵۱) ترجمہ:اورجس شخص کے قتل کرنے کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے، ہاں! مگرحق پر ہو۔ (ترجمہ تھانویؒ) کبھی فعل مباح سے اور کبھی دوسرے طریقوں سے بھی احکام بیان کئے گئے ہیں جس سے ان احکام کا طرز مختلف معلوم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ بعض احکام میں فرضیت کا درجہ ہے تو بعض میں واجب کا، بعض میں سنن ومستحبات کا، بعض میں مباحات کا اور جن باتوں سے منع کیا گیا اس میں بھی بعض حرام کا درجہ رکھتے ہیں تو بعض مکروہ کا یامحض خلافِ اولیٰ کا۔ (سہ ماہی مجلّہ، الصفا، سبیل السلام حیدرآباد) کتاب اللہ سے اخذ معانی کے طریقے قرآن مجید سے احکام درجِ ذیل چار طریقوں سے مستنبط ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں (۱)عبارۃ النص (۲)اشارۃ النص (۳)دلالۃ النص (۴)اقتضاء النص۔ عبارۃ النص عبارۃ النص سے استدلال کرتے وقت احکام صرف صیغہ لفظ سے ہی معلوم ہوجاتے ہیں؛ کیونکہ اس حکم کے واسطے ہی نص کو نازل کیا گیا تھا؛ نیزاس کا مفہوم غور وفکر کے بغیر اوّلِ وہلہ ہی میں سمجھ میں آجاتا ہے، مثلاً قرآن نے کہا "وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا" (البقرۃ:۲۷۵) اس نص سے خریدوفروخت کی حلت اور سود کی حرمت کسی غور وفکر کے بغیر سمجھ میں آجاتی ہے اور اس نص کا مقصود بھی یہی ہے؛ اسی کو عبارۃ النص کہتے ہیں۔ دلالۃ النص جو حکم نص کے الفاظ سے ثابت تو نہ ہو لیکن نص کو سنتے ہی ذہن اس حکم کی طرف منتقل ہوجاتا ہو ،وہ دلالۃ النص ہے ،جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے "فَلَاتَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَاتَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا" (الاسراء:۲۳) اس آیت کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی کسی بات پراف کہنا حرام ہے؛ لیکن دلالۃ النص کے طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب اف کہنا حرام ہے تو سب وشتم کرنا یاجسمانی اذیت دینا بدرجہ اولی حرام ہوگا؛ کیونکہ یہ تکلیف "اف" کہنے سے بھی بڑھ کر ہے۔ اشارۃ النص نص جس بات کو بتانے کے لیے وارد نہ ہوئی ہو؛ لیکن نص کے اصل الفاظ ہی سے جو بات سمجھ میں آجائے وہ اشارۃ النص ہے، مثلاً ارشادِ خداوندی ہے "وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ" (البقرۃ:۲۳۳) اس آیت کا ظاہری مفہوم (عبارۃ) تو یہ ہے کہ ماں کے نفقہ کی ذمہ داری باپ پر ہے؛ لیکن اس میں لفظ ہے "الْمَوْلُوْدِ" اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اولاد باپ ہی کی طرف منسوب ہوگی، ماں کی طرف نہیں؛ کیونکہ اس لفظ کے ذریعہ "ولد" کی نسبت باپ کی طرف کی گئی ہے یہی اشارۃ النص ہے۔ اقتضاء النص نص اور شارع کے کلام کے صحیح ہونے کے لیے بعض اوقات کسی لفظ کو محذوف ماننا ضروری ہوجاتاہے، اس کو "مقتضی" کہتے ہیں اور اس سے ثابت ہونے والے حکم کو "اقتضاء النص" کہتے ہیں مثلاً آیت قرآنی ہے "حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ" (المائدۃ:۳) اس میں حرمت کی نسبت میتہ اور دم کی طرف کی گئی ہے؛ حالانکہ یہ درست نہیں؛ کیونکہ حرمت کا تعلق منھی عنہ (جس چیز سے منع کیا گیا ہے) اس کی ذات سے نہیں ہوتا؛ بلکہ مکلّف کے فعل سے ہوتا ہے؛ پس آیت کا مفہوم اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک کہ مکلّف سے متعلق کوئی فعل محذوف نہ مانا جائے اور ظاہر ہے کہ وہ فعل "اکل" ہی ہوسکتا ہے؛ لہٰذا آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ مردار کا کھانا اور خون کا پینا حرام ہے اور یہاں پر یہی شارع کی مراد ہے۔ (مجلّہ فقہ اسلامی:۱۳۵) قرآن کا تدریجی اندازِ بیان جب آپﷺ مبعوث ہوئے تو اس وقت عربوں میں بعض اچھے عادات تھے، جوبقاء کے لحاظ سے صالح تھے اور ان سے امت کے تکوین پر کوئی نقصان نہیں ہوتا تھا، دوسری طرف اُن میں بعض عادات ایسے بھی تھے جنھوں نے اُن کے اندر اچھی خاصی جگہ بنالی تھی اور ان کے دل میں گھر کرگئی تھیں، انسان حددرجہ وحشیانہ زندگی کا عادی بن چکا تھا اور اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ ایک دم پاکیزہ زندگی کواختیار کرے؛ اس لیے قرآن پاک نے آہستہ آہستہ انسان کی تہذیبی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے احکامات دیئے، خرابی کو ختم کیا گیا اور یہی فطرت کے مناسب بھی ہے؛ کیونکہ اگر ان خرابیوں کوایک دم روک دیا جاتا توطبیعت پر بڑی گرانی ہوتی اور ان سے رُکنا مشکل ہوجاتا، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن پاک میں پہلے خرابی کے نقصانات اور منافع کو شمار کرایا جاتا ہے؛ پھرمفاسد کے پیشِ نظر اس حکم سے منع کیا جاتا ہے،مثلاً شراب کی حرمت بیان کرنا مقصود تھا تو قرآن میں سب سے پہلے اس کے گناہ کے کام میں سے ہونے کی صراحت کی گئی اور ساتھ ہی اس کے منافع کا بھی اعتراف کیا گیا؛ لیکن بعد میں یہ صاف صاف کہہ دیا گیا کہ اس میں نفع سے زیادہ نقصان کا پہلو ہے ،جیسے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا"۔ (البقرۃ:۲۱۹) ترجمہ: ان دونوں (خمرومیسر) کے استعمال میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی ہیں اور لوگوں کے بعض فائدے بھی ہیں اور وہ گناہ کی باتیں ان کے فائدوں سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں۔ (ترجمہ تھانویؒ) دیکھئے یہاں پر بیک وقت اُن دونوں سے رُکنے کا حکم نہیں دیا گیا؛ مگراس انداز سے لوگوں کو ان کا گناہ کے قبیل سے ہونا سمجھ میں آنے لگا اور کچھ نہ کچھ اس کی طرف سے نفرت ہونے لگی تو پھرلوگوں سے کہا گیا: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى"۔ (النساء:۴۳) ترجمہ:اے ایمان والو! تم نماز کے پاس بھی ایسی حالت میں مت جاؤ کہ تم نشہ میں ہو۔ (ترجمہ تھانویؒ) اس نہی میں پہلے حکم کو باطل کرنا مقصود نہیں ہے؛ بلکہ اس کو مزید مؤکد کرنا ہے پھرجب ان لوگوں کے اندر شراب کی طرف سے اچھی طرح بے اطمینانی ہوچکی توصریح طور پر روک دیا گیا کہ شراب نوشی شیطان کے گندے کام میں سے ہے؛ لہٰذاتم اس سے باز آجاؤ؛ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"۔ (المائدۃ:۹۰) ترجمہ:اے ایمان والو (بات یہی ہے کہ) شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر (یہ سب) گندے شیطانی کام ہیں سوان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔ (ترجمہ تھانویؒ) جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں کے سامنے شراب کی حرمت واضح طور پر آگئی اور لوگ اس سے اجتناب کرنے لگے۔ (تاریخ التشریع الاسلامی:۱۸،۱۹) قرآن اصول وکلیات کا مجموعہ قرآن پاک میں ہرحکم کی تفصیل موجود نہیں ہے، عام طور پر کلیات کے بیان پر اکتفاء کیا گیا ہے اور خدائی کلام کے لیے یہی مناسب تھا؛ کیونکہ ہرحکم کی تفصیلات پیش کرنے سے کتاب نہایت طویل ہوجاتی اور اس سے استفادہ کرنا مشکل ہوجاتا، آپ بھی نمونہ کے طور پر قرآن کے ان آیات کا ملاحظہ کیجئے جن میں اس طرح کے اصول بیان کئے گئے ہیں، مثلاً: "وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى"۔ (الانعام:۱۶۴) ترجمہ:کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔ "وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى"۔ (النجم:۳۹) ترجمہ:انسان کے لیے صرف وہ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔ "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ"۔ (المائدۃ:۱) ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے وعدوں کو پورا کرو۔ "وَلَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ"۔ (البقرۃ:۱۸۸) ترجمہ:اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ پہنچاؤ ان کو حاکموں تک کہ کھاجاؤ لوگوں کے مال میں سے کوئی حصہ ناحق درآنحالیکہ تم جانتے ہو۔ "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّاأَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ"۔ (النساء:۲۹) ترجمہ:اے ایمان والو! نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کا ناحق مگر یہ کہ آپس کی مرضی سے تجارت کرو۔ "إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ"۔ (النساء:۵۸) ترجمہ:اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ "وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا"۔ (الاسراء:۳۴) ترجمہ:اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگربہتر طور پر جب تک کہ وہ جوانی کو پہنچے اور عہدکوپورا کرو، بیشک عہد کے متعلق بازپرس ہوگی۔ "الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ"۔ (البقرۃ:۲۲۹) ترجمہ:طلاق رجعی ہے دوبار تک اس کے بعد دستور کے موافق رکھ لینا یابھلی طرح سے چھوڑ دینا۔ "وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ..... لَاتُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَامَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ"۔ (البقرۃ:۲۳۳) ترجمہ:اور باپ کے ذمہ ان عورتوں کا حسب دستور کھانا کپڑا ہے، نقصان نہ دیا جائے ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے اور نہ باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے۔ "وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا"۔ (الشوریٰ:۴۰) ترجمہ:برائی کا بدلہ برائی ہے برابر برابر۔ "وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ"۔ (الطلاق:۲) ترجمہ:تم اپنے میں سےمعتبر لوگوں کو شاہد بناؤ۔ "وَلَاتَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ"۔ (البقرۃ:۲۸۳) ترجمہ:شہادت کو مت چھپاؤ، جو شخص اس کو چھپاتا ہے اس کا دل گنہگار ہے۔ "وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ"۔ (البقرۃ:۲۸۰) ترجمہ:اگرمقروض تنگ دست ہے تو اس کو آسانی حاصل ہونے تک مہلت دو۔ "يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ"۔ (البقرۃ:۱۸۵) ترجمہ:اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ "وَمَاجَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ"۔ (الحج:۷۸) ترجمہ:اللہ تعالیٰ دین کے بارے میں تم پر تنگی نہیں کی ہے۔ "فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ"۔ (البقرۃ:۱۷۳) ترجمہ:پھرجو کوئی بھوک سے بے اختیار ہوجائے نہ فرمانی کرے، نہ زیادتی تواس پر کوئی گناہ نہیں۔ الغرض کتاب اللہ تمام اسلامی قوانین کی اصل بنیاد واساس ہے اور ذریعہ ثبوت کے اعتبار سے اس درجہ قطعی ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب اس کے ہمسر نہیں، اس کتاب میں زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا، چاہے وہ ایمانیات کے قبیل سے ہوں یاعبادات کے شخصی احکام ہوں یامالی معاملات، اجتماعی قوانین ہوں یاتعریزی قوانین، ملکی مسائل ہوں یابین الا قوامی مسائل، امن کے حالات ہوں یاجنگ کے حالات، یہ کتاب ہرحال میں انسانیت کی رہبری کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ "وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ"۔ (النحل:۸۹) ترجمہ:اور مسلمانوں کے واسطے بڑی ہدایت اور بڑی رحمت اور خوشخبری سنانے والا ہے۔ (ترجمہ تھانویؒ) یہی وہ کتاب ہے جس سے دنیا کو افراط وتفریط سے پاک زندگی کا نقشہ میسر آسکتاہے۔ "إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ"۔ (آل عمران:۱۹) ترجمہ:بلاشبہ دین حق اور مقبول اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔ (ترجمہ تھانویؒ)