انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مسجد ضرار جلادی گئی سرحد شام کے حاکموں اوررئیسوں سے اطاعت اورامن وامان رکھنے کا اقرار لے کر صحابہ کرامؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا،سب کی رائے یہی ہوئی کہ اب اور زیادہ قیام اور انتظار کی ضرورت نہیں ہے،ہر قل اوراس کی فوجیں مرعوب ہوچکی ہیں،اگر ان میں ہمت ہوتی تو مقابلے پر آجاتے،آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے مدینے کی طرف روانہ ہوئے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کے قریب پہنچے اورمدینہ صرف ایک گھنٹہ کے راستہ پر رہ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک بن وخشم سالمی اورمعن بن عدی عجلی کو منافقین کی بنائی ہوئی مسجد کے جلانے اورمسمار کرنے کے لئے حکم دیا ؛کیونکہ خدائے تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمادی تھیں: والذین اتخذوامسجداضرار الخ، اوراس طرح منافقین کے کید سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واقف ہوچکے تھے؛چنانچہ مسجد ضرار کا نام ونشان مٹادیا گیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان ۹ھ میں داخلِ مدینہ ہوئے، اس سفر یعنی غزوہ تبوک میں دو مہینے صرف ہوئے۔ حضرت کعب بن بن مالک، ضرارہ بن الربیع، بلال بن امیہ تین صحابی ایسے تھے جو صالحین صحابہ میں سے تھے مگر محض سستی کی وجہ سے آج کل کرتے رہے اورسامانِ سفر کی درستی نہیں کی یہاں تک کہ لشکرِ اسلام مدینے سے روانہ ہوگیا،اس کے بعد بھی سُستی کی وجہ سے روانہ نہ ہوسکے، اب جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس آکر مدینے تشریف لائے تو ان تینوں نے حاضرِ خدمت ہوکر اپنی غلطی کا صاف صاف اقرار کیا،ان کے لئے حکم صادر ہوا کہ کوئی شخص ان تینوں سے ہم کلام نہ ہو،پچاس دن تک یہ برابر توبہ استغفار کرتے رہے تب خدائے تعالی ٰ کی طرف سے حکم نازل ہوا کہ ان کی توبہ قبول ہوگئی، جب تک ان کی توبہ قبول نہ ہوئی کوئی شخص حتیٰ کہ ان کے گھر والے بھی ان کی کسی بات کا جواب نہ دیتے تھے ان کو سلام کا جواب بھی لوگوں سے نہ ملتا تھا، زندگی ان کے لئے وبال جان اوردوبھر تھی،یہ کیفیت جب مشہور ہوکر غسانی بادشاہ کے کانوں تک پہنچی تو اس نے اپنا ایلچی خط دے کر کعب بن مالک کے پاس بھیجا کہ تم ایک رئیس اورشریف آدمی ہو، تمہارے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی بُرا سلوک کیا ہے تم میرے پاس چلے آؤ، میں تمہاری خوب عزت ودلدہی کروں گا،حضرت کعب بن مالک کے پاس جب یہ خط پہنچا تو انہوں نے اس خط کو پڑھ کر تنور میں ڈال دیا اورایلچی سے کہا جاؤ اس کا یہی جواب تھا ،جب حضرت کعب بن مالک کی توبہ قبول ہوئی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرامؓ نے ان کو مبارکباد دی تو انہوں نے اپنا تمام مال خدا کے نام پر تصدق کردیا۔