انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آدابِ رسالتﷺ قرآنِ پاک کی رُو سے حضورؐ ﷺکے ہرحکم کو دل سے قبول کرنا ضروری ہے اور اس کے بغیر کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا، تویہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ رسول کریمﷺ کا ادب دل سے بھی اسقدر ہونا چاہیے کہ مجال ہے آپؐ ﷺکی کسی بات کے بارے میں تنگی آئے، قرآنِ کریم میں ہے : "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَاتَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَاتَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَاتَشْعُرُونَ"۔ (الحجرات:۲) اے ایمان والو! اپنی آوازیں بلند نہ کرو نبی کی آواز سے اور آپ سے تیز آواز کے ساتھ نہ بولو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے سے بولتے ہو، اندیشہ ہے کہ کہیں تمہارے اعمال ضائع نہ ہوجائیں اور تمھیں خبر نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں حضرت رسالتِ آپؐﷺ کا ادب بتایا ہے، اس سے پہلی والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُمتیوں کواپنے نبی کے آداب سکھائے ہیں کہ تمھیں اپنے نبی کا توقیر واحترام عزت واعظام اسقدر کرنا چاہیے کہ تم اپنے سارے کاموں کوخدا اور اس کے رسول کے پیچھے رکھو، اس آیت میں ارشاد ہوا کہ نبی کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو جیسے ایک دوسرے سے بے محابا بات کرتے ہو؛ اسی طرح حضورؐ کے سامنے اونچی آواز کرنا ایک قسم کی بے ادبی اور گستاخی ہے، شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "حضورؐ کی مجلس میں شور نہ کرو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بے تکلف، جہک تڑخ کر بات کرتے ہو حضورﷺ کے ساتھ یہ طریقہ اختیار کرنا خلافِ ادب ہے، آپ سے خطاب کرو تونرم آواز سے، تعظیم واحترام کے لہجہ میں، ادب وشائستگی کے ساتھ، دیکھو ایک مہذب بیٹا اپنے باپ سے لائق شاگرد اُستاد سے، مخلص مرید پیرومرشد سے اور ایک سپاہی اپنے افسر سے کس طرح بات کرتا ہے، پیغمبر کا رُتبہ توان سب سے کہیں بڑھ کر ہے، آپ سے گفتگو کرتے وقت پوری احتیاط رکھی جائے، مبادا بے ادبی ہوجائے اور آپﷺ کوتکدر پیش آئے توحضورﷺ کی ناخوشی کے بعد مسلمان کا ٹھکانہ کہاں ہے؛ ایسی صورت میں تمام اعمال ضائع ہونے اور ساری محنت رائیگاں جانے کا اندیشہ ہے"۔ (فوائدعثمانی برترجمہ شیخ الہند:۶۸۴) حضرت شیخ الاسلام کی اس تفسیر میں علماءِ دیوبند کا موقف روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ حضرات رسالت کا ادب واحترام کس طرح مانتے ہیں، اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ نبی کا درجہ اپنے بڑے بھائی کا سا نہیں، باپ، اُستاذ، پیرومرشد اور اپنے افسر وآقا ہرایک سے بڑھ کر ہے، حضرت مولانا محمداسماعیل شہیدؒ کا عقیدہ بھی یہی تھا: "بشر کے حق میں رسالت سے بڑا کوئی مرتبہ نہیں اور سارے مراتب اس سے نیچے ہیں"۔ (تقویۃ الایمان:۵۴) حضوراکرمﷺ کے بارے میں حضرت مولانا اسماعیل شہیدؒ لکھتے ہیں کہ: "ہمارے پیغمبر (ﷺ )سارے جہاں کے سردار ہیں کہ اللہ کے نزدیک ان کا مرتبہ سب سے بڑا ہے اور اللہ کے احکام پر سب سے زیادہ قائم ہیں اور لوگ اللہ کی راہ سیکھنے میں ان کے محتاج ہیں"۔ (تقویۃ الایمان:۵۵) آپ اس سے پہلے بھی حضورﷺ کے بارے میں لکھ آئے ہیں: "سب انبیاء واولیاء کے سردار پیغمبرؐﷺ تھے اور لوگوں نے ان کے بڑے بڑے معجزے دیکھے انہیں سے سب اسرار کی باتیں سیکھیں اور سب بزرگوں کوانہی کی پیروی سے بزرگی حاصل ہوئی"۔ (تقویۃ الایمان:۲۱) حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ حضورﷺ کی شان میں گستاخی کوایک بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں: "خطرہ اس لیے کہ رسولﷺ کی شان میں گستاخی یااُن کی آواز پر اپنی آواز کوبلند کرکے غالب کرنا ایک ایسا امر ہے جس سے رسولﷺ کی شان میں گستاخی اور بے ادبی ہونے کا احتمال ہے، جو سبب ہے ایذاءِ رسولﷺ کا"۔ (معارف القرآن:۸/۱۰۲) حضراتِ صحابہ کرامؓ اس آیت شریفہ کے نزول کے بعد بہت احتیاط سے آپﷺ کے ساتھ کلام کرتے تھے اور ڈرتے تھے کہ کہیں ان کی آواز رسول اللہﷺ کی آواز سے بلند نہ ہوجائے، حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمرؓ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسے اکابرصحابہ کرامؓ بھی آپﷺ سے بات کرتے ہوئے جھجکتے تھے: "فَهَابَا أَنْ يُكَلِّمَاهُ"۔ (بخاری، كِتَاب الْأَدَبِ،بَاب مَايَجُوزُ مِنْ ذِكْرِ النَّاسِ نَحْوَقَوْلِهِمْ الطَّوِيلُ وَالْقَصِيرُ،حدیث نمبر:۵۵۹۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:یہ دونوں حضرات بھی ہیبت کھاتے تھے کہ آپ سے کلام کریں۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ صحابہؓ کے ہاں دربارِ رسالت کا عزواحترام اور توقیر واحترام کتنا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضورﷺ سے کہا یارسول اللہﷺ خدا کی قسم اب تومیں آپ سے اس طرح بات کروں گا جس طرح کوئی سرگوشی کرتا ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اس طرح آہستگی سے بات کرتے تھے کہ بعض اوقات حضورؐ ان کی بات سن نہ پاتے جب تک کہ دوبارہ استفہام نہ فرماتے ۔ (تفسیرابنِ کثیر:پارہ:۲۹، صفحہ:۷۴) قرآنِ کریم آپﷺ کی تعظیم وتوقیر کا اِن الفاظ میں حکم دیتا ہے: "إِنَّاأَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ"۔ (الفتح:،۹،۸) ترجمہ:ہم نے تجھ کو بھیجا احوال بتانیوالا اور خوشخبری اور ڈرسنانیوالا؛تاکہ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر یقین لاؤ اور اس کی نصرت کرو اور اس کی عظمت قائم رکھو اور خدا کی پاکی بولو صبح وشام۔ یہ حکم خداوندی بتارہا ہے کہ جناب رسول اللہﷺ کی تعظیم وتوقیر اور آپ کا اکرام واحترام ہربندۂ مؤمن کے ذمہ لازم ہے یہ تعظیم ایمانی اور قلبی حدود میں تو ہے ہی کہ بدوں اس کے مؤمن ہونے کا تصور بھی نہیں ہوسکتا؛ لیکن بیرونی حدود میں بھی تعظیم درکار ہے کہ آپ کی آواز سے آواز بلند نہ کرے، آپ کو اپنے جیسوں کی طرح نہ بلائے، آپ کی ہرپکار پر لبیک کہے، آپ کے ہرحکم کواپنے لیے واجب عمل جانے، اس کے انکار کوکفر جانے اور اس کے ترک کو گناہ سمجھے، رہا موضوع بدنی تعظیم کا توآپ کے لیے دست بستہ قیام رکوع اور سجدہ نہ کرے۔