انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سریہ زید بن حارثہ بجانب عیص(جمادی الآخر ۶ہجری) حضور اکرمﷺ کو اطلاع ملی کہ ایک تجارتی قافلہ شام سے آرہا ہے ، اس قافلہ کو روکنے کے مقصد سے حضورﷺ نے حضرت زیدؓ بن حارثہ کی قیادت میں ایک دستہ جس میں (۷۰) سوار تھے عیص کی جانب روانہ کیا، یہ تجارتی قافلہ حضور اکرم ﷺ کے داماد حضرت ابوالعاص کی قیادت میں آرہا تھا جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، وہ مسلمانوں کی گرفت سے بچ کر نکل گئے اور سیدھے مدینہ پہنچے جہاں ان کی بیوی زینب تھیں ان سے کہا کہ وہ حضور اکرم ﷺ سے کہہ کر قافلہ کا مال واپس دلا دیں، حضرت زینبؓ نے حضور ﷺ کے سامنے یہ بات پیش کی تو آپﷺ نے کسی طرح کا دباو ڈالے بغیر صحابہ کرامؓ سے اشارہ کیا کہ مال واپس کردیں، صحابہ کرامؓ نے تھوڑا زیادہ اور چھوٹا بڑا جو کچھ تھا واپس کردیا، ابوالعاص سارا مال لے کر مکہ پہنچے، امانتیں ان کے مالکوں کے حوالہ کیں، پھر مسلمان ہوکر مدینہ واپس آئے، حضور اکرم ﷺ نے پہلے ہی نکاح کی بنیا د پرحضرت زینب ؓ کو ان کے حوالے کردیا جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے،آپﷺ نے پہلے ہی نکاح کی بنیاد پر اس لئے حوالے کردیاتھاکہ اس وقت تک کفار پر مسلمان عورتوں کے حرام کئے جانے کا حکم نازل نہیں ہواتھا، اور ایک حدیث میں یہ جو آیا ہے کہ آپﷺ نے نکاح جدید کے ساتھ رخصت کیا تھا یا یہ کہ چھ برس کے بعد رخصت کیاتھا تو یہ نہ معناصحیح ہے نہ سنداً، بلکہ دونوں لحاظ سے ضعیف ہے ، اور جو لوگ اسی ضعیف حدیث کے قائل ہیں وہ ایک عجیب متضاد بات کہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ابوالعاص ۸ ہجری کے اواخر میں فتح مکہ سے کچھ پہلے مسلمان ہوئے تھے ، پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ۸ ہجری کے اوائل میں حضرت زینب ؓ کا انتقال ہوگیاتھا حالانکہ اگر یہ دونوں باتیں صحیح مان لی جائیں تو تضاد بالکل واضح ہے، سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں ابوالعاص کے اسلام لانے اور ہجرت کرکے مدینہ پہنچنے کے وقت حضرت زینبؓ زندہ ہی کہاں تھیں کہ انھیں ان کے پاس نکاح جدید یا نکاح قدیم کی بنیاد پر ابوالعاص کے حوالے کیاجاتا،مشہور صاحب مغازی موسیٰ بن عقبہ کا رجحان اس طرف ہے کہ یہ واقعہ ۷ ہجری میں ابو بصیر اور ان کے رفقاء کے ہاتھوں پیش آیاتھا لیکن یہ نہ حدیث صحیح کے موافق ہے نہ حدیث ضعیف۔ (الرحیق المختوم) طبقات میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کو خبر پہنچی کہ قریش کا ایک قافلہ شام سے آرہاہے ، آپﷺ نے حضرت زیدؓ بن حارثہ کو ستر سواروں کے ہمراہ اس کو روکنے کے لئے بھیجا ، انھوں نے اسے اور جو کچھ اس میں تھا گرفتار کرلیا ، اس سامان میں صفوان بن اُمیہ کی بہت سی چاندی بھی تھی ، کچھ آدمیوں کو بھی گرفتار کیا جو اس قافلہ میں تھے جن میں حضور ﷺ کے داماد ابوالعاص بن الربیع بھی تھے ، انھیں مدینہ لے آئے ، ابوالعاص نے رسول اﷲ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ سے پناہ مانگی ، انھوں نے ان کو پناہ دے دی، رسول اﷲ ﷺ نے نماز فجر پڑھ لی تو حضرت زینبؓ نے لوگوں میں ندا دے دی کہ میں نے ابوالعاص کو پناہ دے دی ہے، رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ! ہمیں اس کا کچھ غم نہیں ، ہم نے بھی اسے پنا ہ دی جسے تم نے پناہ دی اور جو کچھ اس سے لیا گیاتھا آپﷺ نے اسی کو واپس کردیا۔ (طبقات ابن سعد)