انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عمر بن عبدالعزیم رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت پرایک نظر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کی طرح بہت ہی مختصر ہے؛ لیکن جس طرح عہد صدیقی بہت ہی اہم اور قیمتی زمانہ تھا؛ اسی طرح عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کا زمانہ بھی عالم اسلام کے لیے قیمتی زمانہ تھا، بنواُمیہ کی حکومت نے بتدریج لوگوں میں دنیا پرستی اور حب جاہ ومال پیدا کرکے آخرت کی طرف سے غفلت پیدا کردی تھی، عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی چند روزہ خلافت نے یک لخت ان تمام خرابیوں کودور کرکے مسلمانوں کوپھرروحانیت اور نیکی کی طرف راغب کردیا، حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے خلافتِ اسلامیہ کوخلافتِ راشدہ کے نمونے پر قائم کرکے عہد صدیقی وعہد فاروق کودنیا میں پھرواپس بلالیا۔ خَاف کے استبداد اور قہر وجبر کووہ سخت ناپسن کرتے اور دنیا میں آزادی وامن قائم کرکے ہرشخص کواس کے اسنانی حقوق سے متمتع ہونے کا موقع دینا چاہتے تھے، انھوں نے ایک منکر خدا کوبھی مجبور کرنا نہیں چاہا؛ انھوں نے خوارج کوبھی اپنے اظہارِ خیال کا موقع دیا، وہ خلیفۃ المسلمین کا مرتبہ اسی حد تک قائم رکھنا چاہتے تھے کہ اگرکوئی مجرم خلیفہ کوگالی دے توزیادہ سے زیادہ خلیفہ بھی ویسی ہی گالی اس کوانتقاماً دے سکتا ہے، وہ اپنے ماتحتوں سے اس بات کے خواہاں نہ تھے کہ ان کی ہرایک جاوبے جابات کی تائید کی جائے وہ خلیفہ کومسلمانوں کا حکمران اور فرماں روا نہیں جانتے تھے؛ بلکہ مسلمانوں کا شفیق باپ سمجھتے تھے؛ غرض عہد صدیقی وفاروقی میں جوجو کچھ ہم نے دیکھا ہے اس کے تمام نمونے عمر بن عبدالعزیز کے اندر موجود تھے اور اسی لیے بجاطور پرکہا جاسکتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کے فوت ہونے پرخلافتِ راشدہ ختم ہوگئی، ان کے زمانے میں کثیرالتعداد لوگوں نے بطیب خاطر اسلام قبول کیا، نومسلموں کی یہ کثرت کسی دوسرے خلیفہ کے زمانے میں نظر نہیں آتی؛ حالاں کہ آپ کے عہد خلافت میں بہت ہی کم لڑائیاں اور چڑھائیاں ہوئیں، آپ کی حکومت وسلطنت کے حدود سندھ وپنجاب وبخارا وترکستان وچین سے لے کرمراقش واندلس وفرانس تک وسیع تھے، اتنی بڑی عظیم الشلان سلطنت میں ہرجگہ یکساں سکون اور امن وامان موجود تھا۔ آپ کے عہدِ مبارک میں سڑکیں نکالی گئیں ہرملک میں مدرسے اور شفاخانے جاری ہوئے، عدل وانصاف دنیا نے آپ کے بعد آج تک کبھی ایسا نہیں دیکھا، یہی وجہ تھی کہ آپ کے انتقال پرنہ صرف مسلمانوں کے گھروں میں ماتم ہوا؛ بلکہ مسلمانوں سے بڑھ کر عیسائی ویہودی سوگوار پائے گئے، راہبوں نے آپ کے مرنے کی خبر سن کراپنے صومعوں اور عبادت خانوں میں سرپیٹ لیے اور کہا کہ آج دنیا سے عدل اُٹھ گیا اور عدل کا قائم کرنے والا اور عدل کی حفاظت کرنے والا دنیا کوخالی کرگیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے شیعہ، سنی، خارجی وغیرہ کے تمام اختلافات مٹادیئے اور آج بھی کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جوحضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی طرف سے اپنے دل میں کوئی نفرت رکھتا ہو؛ ہرایک سوچنے اور غور کرنے والے کے لیے موقع ہے کہ سوچے اور غور کرے کہ جوشخص سب سے زیادہ پابند اسلام ہوتا ہے وہی سب سے زیادہ محبوب عالم بن جاتا ہے، آخر یہ اسلام کی خوبی نہیں تواور کیا ہے، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ، نورالدین زنگی، صلاح الدین ایوبی رحمہم اللہ کواہلِ یورپ بڑی عزت وعظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ساتھ ہی ان کویہ بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ لوگ اسلام کے کس قدر پابند تھے، ان کی تمام خوبیاں صرف اسی ایک بات پرمنحصر تھیں کہ وہ سچے پکے مسلمان تھے اور انھوں نے اپنی زندگیوں کواسلامی نمونے پرقائم رکھنا چاہا تھا، ایک طرف ہم سوچتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ دنیا کے سب سے بڑے شہنشاہ تھے اور دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ وہ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے منبر پرخطبہ دے رہے ہیں توحیرت واستعجاب کی انتہا نہیں رہتی، فرض اور ذمہ داری کے احساس کا اس سے بڑھ کراور کیا مرتبہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی زندگی نہایت عیش وتنعم کی حالت میں بسر ہوئی تھی؛ لیکن خلیفہ ہونے کے بعد صرف ڈھائی سال کے عرصہ میں اس قدر لاغر ہوگئے تھے کہ جسم کی ایک ایک ہڈی الگ الگ گنی جاسکتی تھی۔