انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
انشورنس کی شرعی حیثیت اوراسی کے متعلق مختلف احکامات زندگی، گھر اور مال وغیرہ کے انشورنس کا حکم انشورنس سود اور قمار پرمشتمل ہونے کی بناء پربالکل حرام ہے؛ البتہ جوانشورنس حکومت کی طرف سے لازمی ہو، مثلاً: موٹر وغیرہ کا بیمہ، اس کومجبوراً کراسکتے ہیں؛ مگرجب رقم ملے توصرف اتنی رقم خود استعمال کرسکتے ہیں جتنی خود داخل کی تھی، اس سے زائد نہیں۔ (فتاویٰ عثمانی:۳/۳۱۴) انشورنس انشورنس Insurance کی صورتوں اور پالیسیوں میں اس قدر تنوع پیدا ہوچکا ہے اور آئے دن اس کی ایسی نئی شکلیں پیدا کی جارہی ہیں کہ ان سب کا احاطہ دشوار ہے، ان میں زیادہ اہم اور مروج حیات اور املاک کا انشورنس ہے، اس میں انشورنس کمپنی اور انشورنس کرانے والے کے درمیان ایک مخصوص مدت کا معاہدہ ہوتا ہے کہ اس مدت میں وہ اتنی رقم بالاقساط کمپنی کوادا کرے گا، جن میں ہرقسط اتنے روپئے کی ہوگی یہ انشور نس کبھی انسان کے پورے وجود کا ہوتا ہے کبھی جسم کے کسی خاص حصہ کا کبھی املاک مثلاً کارخانہ اور دکان وغیرہ کا؛ اگرجسم یااس کے کسی خاص حصہ کا بیمہ کرایا گیا اور مدت معاہدہ کی تکمیل سے پہلے ہی اس شخص کا انتقال ہوگیا یااس کا وہ عضو کسی حادثہ کا شکار ہوگیا توچاہے اس نے چند ہی قسطیں کیوں نہ دی ہوں اس پوری متعینہ رقم کا حق دار ہوجاتا ہے؛ اسی طرح اگروہ املاک ضائع ہوگئیں توکمپنی اس کی تلافی کی ذمہ داری قبول کرتی ہے اور اگراس نے معاہدہ کے مطابق پوری رقم ادا کردی اور وہ خود یابیمہ کردہ چیز اور عضو محفوظ رہا تواب اصل رقم منافع کے ساتھ واپس ملتی ہے جس کوبونس سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان تمام صورتوں میں بنیادی طور پردومفاسد پائے جاتے ہیں، ایک ربوٰ اور دوسرے قمار...... ربوٰ توہرصورت میں ہے اس لیے کہ اس جمع شدہ رقم کی حیثیت قرض کی ہے اور منافع گویا اس مہلت کا معاوضہ ہے جوقرض کی واپسی کے لیے دی گئی ہے؛ اسی کا نام ربوٰ ہے، جولوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سود صرف تجارت ہی میں ہوتا ہے، قرض میں نہیں ہوتا وہ صریح غلطی بلکہ بدترین قسم کی معنوی تحریف میں مبتلا ہیں، سلف صالحین رحمہ اللہ کے یہاں تواتر کی حد تک اس کی صراحت موجود ہے؛ یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے، ہم صرف حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی رائے نقل کرنے پراکتفا کرتے ہیں: وهوالقرض على أن يؤدي إليه أكثر أوأفضل مماأخذ۔ (حجۃ اللہ البالغہ:۱/۶۴۶، شاملہ، الناشر:دارالكتب الحديثة،مكتبة المثنى، مكان النشرالقاهرة،بغداد۔ دیگر مطبوعہ:۲/۹۸) ترجمہ: ربوٰ درحقیقت اس شرط کے ساتھ قرض دینا ہے کہ مقروض اس کواصل میں اضافہ کے ساتھ یااس سے عمدہ چیز واپس کرے گا۔ اور اگرقبل ازوقت موت واقع ہوگئی توقمار پایا گیا، قمار یہ ہے کہ ہردوجانب سے مال ہو اور مال کے حاصل ہونے یانہ ہونے کی بنیاد کسی ایسی چیز کوبنایا جائے جس کا موجود ہونا اور نہ ہونا مبہم ہو؛ اسی کوفقہاءخطر اور مخاطرہ سے تعبیر کرتے ہیں اور ایسی تمام صورتوں کوجوے میں شمار کرتے ہیں: لَاخِلَافَ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ، فِي تَحْرِيمِ الْقمَاروَأَن الْمخَاطرۃ مِنَ الْقمارِ۔ (أحكام القرآن، أحمد بن علي الرازي الجصاص أبو بكر:۲/۱۱، شاملہ، دارإحياء التراث العربي،بيروت۔ دیگرمطبوعہ:۱/۳۸۸) ترجمہ:اہلِ علم کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قمار حرام ہے اور مخاطرہ بھی قمار ہی میں سے ہے۔ یہاں بھی یہی صورت ہے کہ درمیان میں موت یااس عضو کے ضائع ہونے یاہلاک ہوجانے کی وجہ سے جونفع متوقع ہے اس کا حاصل ہونا اور نہ ہونا خطرہ میں ہے کہ اگریہ چیزیں سلامت رہ گئیں تویہ نفع حاصل نہ ہوسکے گا اور مدت مقررہ سے پہلے مذکورہ چیز ضائع ہوجائے تویہ نفع حاصل نہ ہوسکے گا اور مدتِ مقررہ سے پہلے مذکورہ چیز ضائع ہوجائے تونفع حاصل ہوگا؛ املاک کے انشورنس میں کمپنی صرف املاک کے ضائع ہونے کی صورت میں پیسے ادا کرتی ہے، یہ صورت بھی قمار سے خالی نہیں، یہ توانشورنس کا اصل حکم ہے؛ لیکن ہندوستان کے موجودہ حالات یہ ہیں کہ منصوبہ بند فرقہ پرستوں کی طرف سے مسلمانوں کی جان ومال مستقل خطرے میں ہے، آئے دن فسادات ہوتے رہتے ہیں اور حکومت کا عملہ کہیں تومفسدین کی پشت پناہی کرتا ہےاور کہیں خاموش تماشائی بن کرمسلمانوں کی تباہی وبربادی کے منظر سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے، ہماری جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس سے پہلو تہی کے نتیجہ میں ہونے والے نقصانات کا تاوان حکومت پرعائد ہوتا ہے؛ اگرمظلوم اپنا حق سیدھی راہ سے حاصل نہ کرسکے اور کسی طور ظالم کی ایسی چیز اس کے پاس آجائے جس سے وہ اپنا حق وصول کرسکے تویہ جائز ہے، جس کوفقہاء ظفر بالحق سے تعبیر کرتے ہیں؛ پھرکتاب وسنت کے نصوص کی روشنی میں فقہاء کے یہاں یہ متفقہ اصول ہے کہ شدید ضرورت کی وجہ سے ناجائز چیزیں جائز ہوجاتی ہیں الضرورات تبیح المحظورات اوریہ صراحت بھی فقہاء نے فرمائی ہے کہ اجتماعی اور قومی سطح کی حاجت بھی ضرورت کے درجہ میں ہے الحاجۃ اذا عمت کانت کالضرورۃ اس لیے ان تمام حالات اور شریعت کے مزاج ومذاق اور اصول وقواعد کو سامنے رکھ کرسب سے پہلے ۱۹۶۵ء میں مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنؤ نے علماء کی ایک نشست میں ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اس کے جائز ہونے کا فتویٰ دیا؛ پھردارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء نے دارالعلوم کے مفتیان اور اکابر اساتذہ کے دستخط سے ۱۹۹۰ء میں ادارۃ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہند کے استفتاء پراس کے جواز کا فتویٰ صادر فرمایا، جسے جمعیۃ علماء ہند نے اپنے مطبوعہ پمفلٹ کے ذریعہ پورے ملک میں پہنچانے کی سعی کی؛ نیز۳۰/اکتوبر تا۲/نومبر ۱۹۹۲ء میں اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے سیمینار منعقدہ اعظم گڈھ (یوپی) نے ملک کے ۲۵/ممتاز علماء کے دستخط اور اتفاق سے ان خصوصی حالات میں انشورنس کے جواز کا فیصلہ کیا، ان دستخط کنندگان میں دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ ومفتیان، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور امارتِ شرعیہ بہار واُڑیسہ کے ذمہ داران ومفتیان کے علاوہ شمالی اور جنوبی ہند کے متعدد ارباب فتاویٰ ہیں؛ لہذا بہ حالت موجودہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے جان ومال کے انشورنس کی گنجائش ہے؛ البتہ ان امور کوملحوظ رکھنا چاہیے: (۱)جوحضرات عملاً جان ومال کے خطرات سے دوچار نہ ہوں ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس سے احتیاط کریں۔ (۲)انشورنس کرانے کے بعداگرواقعی فساد میں جان ومال کا نقصان ہوا تب توکمپنی کی طرف سے حاصل ہونے والی پوری رقم اس کے لیے جائز ہوگی۔ (۳)اور اگرنقصان نہ ہوا یاہوا؛ لیکن طبعی اسباب کے تحت ہوا توایسی صورت میں اتنی ہی رقم اس کے لیے حلال ہوگی، جتنی اس نے جمع کی تھی، اضافی رقم کوغرباء یارفاہی کاموں میں بلانیت صدقہ خرچ کردینا واجب ہوگا۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۳۱۔ فتاویٰ محمودیہ:۳۹۰،۱۶/۳۸۷۔ فتاویٰ رحیمیہ:۹/۲۵۵) جبری انشورنس انشورنس کی بعض صورتیں جبری ہیں، سرکاری ملازمین اور لیبر لا (Labour Law) کے تحت بعض خانگی ملازمین بھی انشورنس کرانے پرمجبور ہوتے ہیں، تنخواہ ہی میں سے ایک متعینہ رقم وضع کرلی جاتی ہے اور انشورنس کے اُصول کے مطابق ملازمت ختم ہونے کے بعد وہ رقم اضافہ کے بعد ملازم کواور دورانِ ملازمت موت ہوجانے کی صورت میں اس کے ورثہ کودے دیتی ہے، بعض صورتوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگرملازم بیمار پڑجائے تواس کے علاج پررقم خرچ کی جاتی ہے اور درمیانِ ملازمت موت واقع ہوجانے کی صورت میں اس کے ورثہ کو اس وقت تک کے لیے پنشن دی جاتی ہے جب تک کہ ورثہ میں سے کسی کوروزگار حاصل نہ ہوجائے؛ چونکہ ان صورتوں میں رقم پرقبضہ سے پہلے ہی انشورنس کمپنی اسے لے لیتی ہے، اس لیے یہ سمجھنا چاہیے کہ وضع شدہ رقم کے بعد جورقم بچی ہوئی ہے وہی اصل میں اس کی اُجرت اور تنخواہ ہے، اب حکومت ملازم یااس کے ورثہ کوجوکچھ دیتی ہے یااس کے علاج پرجوکچھ خرچ کرتی ہے، اس کی حیثیت حکومت کی طرف سے اپنے ایک خدمت گزار شہری کے تعاون اور قدردانی کے قبیل سے ہے، اس وقت اسی پرعلماء کا فتویٰ ہے۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۳۵) پوسٹل بیمہ بیمہ کی ایک شکل پوسٹل بیمہ کی بھی ہے، بیمہ کے ذریعہ روپیہ اور اہم کاغذات ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجے جاتے ہیں اور محکمہ پوسٹ اس کی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے..... یہ صورت گوبیمہ کہلاتی ہے؛ لیکن اپنی رُوح کے اعتبار سے رقم اور کاغذات پہنچانے کی اُجرت ہے، جائز کام پراُجرت کا لینا اور دینا دونوں ہی جائز ہے، اس لیے اس میں کوئی قباحت نہیں۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۳۶) انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے انشورنس اگرانشورنس کی وجہ سے گورنمنٹ انکم ٹیکس سے چھوٹ دیتی ہو توانکم ٹیکس سے بچنے کی نیت سے انشورنس کرایا جاسکتا ہے؛ البتہ اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ جتنی رقم خود اس نے جمع کی ہے؛ اتنی تواس کے لیے حلال ہے اور کمپنی جواضافی رقم دے وہ اس کے لیے جائز نہیں، اس کوبلانیت صدقہ غرباء پریارفاہی کاموں میں خرچ کردینا چاہیے..... ہاں اگرفرقہ وارانہ فسادات میں اس کوجانی یامالی نقصان پہنچے تواب پوری رقم اس کے لیے جائز ہوگی اور یہ زائد رقم حکومت کی طرف سے تحفظ میں کوتاہی کا ہرجانہ تصور کیا جائےگا۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۳۶) انشورنس کے سود سے ٹیکس ادا کرنا اگرغیرارادی طور پریاکسی مجبوری کے تحت رقم جمع کرنے پرسود مل گیا، جسے انشورنس میں حاصل شدہ اضافی رقم یافکس ڈپازٹ میں ملا ہوا سود اور گورنمنٹ کی طرف سے اس پرکوئی واجبی ٹیکس جیسے کسٹم ڈیوٹی، انکم ٹیکس اور سیل ٹیکس وغیرہ عائد کیا گیا تویہ سود کی رقم ٹیکس میں ادا کی جاسکتی ہے، اس لیے کہ شریعت کا اصول یہ ہے کہ اگرکسی کا مالِ حرام اپنے پاس آجائے اور مالک معلوم ہوتومالک کوپہنچانے کی کوشش کی جائے؛ گورنمنٹ کے بعض ایسے ٹیکس بھی ہوتے ہیں جس کا فائدہ ادا کنندہ کی طرف واپس آتا ہو جیسے بلدیہ کا ٹیکس، بجلی اور پانی کا بل وغیرہ، ایسے ٹیکسوں کوفقہاء نے جائز قرار دیا ہے؛ لہٰذا ایسے ٹیکسوں میں بینک اور انشورنس سے حاصل ہونے والی رقم دی جانی جائز نہیں۔ (جدیدفقہی مسائل:۱/۴۳۶) مشترک مالِ تجارت کا جہاز ڈوبنے کی صورت میں انشورنس کمپنی یاشریک سے نقصان کی تلافی کرانے کا حکم انشورنس کے مروّجہ طریقے میں شرعاً سود اور قمار ہوتا ہے؛ لہٰذا انشورنس کمپنی سے صرف اتنی رقم وصول کرنا جائز ہے جتنی رقم اس کمپنی کے پاس اقساط کے طور پرجمع کی تھی، اس سے زائد لینا جائز نہیں؛ اگرزائد رقم لےلی گئی ہے تواس کوثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردینا واجب ہے۔ (فتاویٰ عثمانی:۳/۳۳۳)