انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بچپن میں بلندی کے آثار عموماً جو اشخاص مستقبل میں بڑے ہونے والے ہوتے ہیں ، ان کے بچپن ہی کے واقعات ان کے روشن اور پر عظمت مستقبل کا پتہ دیتے ہیں، اگر دنیا کے اکابر رجال کے ابتدائی حالات کا پتہ چلایا جائے تو ان کی صغر سنی ہی کے واقعات سے ان کی آئندہ عظمت کا پتہ چل جائے گا۔ چونکہ حضرت عبداللہ کو آگے چل کر اکابر رجال کی فہرست میں داخل ہونا تھا اور تاریخ اسلام میں عزم و حوصلہ اور تہور وشجاعت کی داستانیں چھوڑنی تھیں اس لئے بچپن ہی سے وہ نہایت جری ،بیباک ،باحوصلہ تھے،بچوں میں عموماً خوف و ہراس غالب ہوتا ہے اور وہ معمولی معمولی باتوں سے ڈر جاتے ہیں،لیکن عبداللہ اس عمر میں بھی بڑے نڈر تھے،اسی زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ وہ ایک مرتبہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ ایک شخص نے چیخ مار کر بچوں کو بھگا دیا،لیکن عبداللہ فوراً سنبھل کر لوٹ پڑے اور لڑکوں سے کہا تم لوگ ہمیں اپنا سردار بناکر اس شخص پر حملہ کردو؛چنانچہ اسی وقت ایک چھوٹی سی فوج مرتب کرکے اس شخص پر حملہ کردیا۔ بچپن میں جب بیعت کے لئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کئے گئے تو ان کے دو اور ہم سن حضرت جعفرؓ کے لڑکے عبداللہ اور ابو سلمہ کے لڑکے عمر بھی بیعت کے لئے پیش کئے تھے، یہ دونوں تو رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر جھجکے لیکن عبداللہ ؓ بڑی دلیری سے آگے بڑھ گئے، آنحضرتﷺ ان کی تیزی دیکھ کر مسکرادیئے اورفرمایا اپنے باپ کا بیٹا ہے۔ (البدایہ والنہایہ:۸/۳۳۳) حضرت عمرؓ درشت آدمی تھے،اس لئے لڑکے انہیں دیکھ کر شرارت بھول جاتے تھے اور بھاگ نکلتے تھے ایک مرتبہ ابن زبیرؓ بچوں کےسا تھ کھیل رہے تھے، حضرت عمرؓ ادھر سے گذرے تو سب بچے ان کو دیکھ کر بھاگ گئے؛ لیکن عبداللہ بدستور اپنی جگہ کھڑے رہے،حضرت عمرؓ نے پوچھا تم کیوں نہیں بھاگے انہوں نے کڑک کر جواب دیا، میں کیوں بھاگتا نہ میں نے کوئی جرم کیا تھا اورنہ راستہ تنگ تھا کہ آپ کے لئے چھوڑتا، (یہ دونوں واقعہ ،اثیر:۳/۲۹۳ سے ماخوذ ہیں) ان واقعات سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ عبداللہ بچپن ہی سے کس قدر جری اوردلیر تھے۔