انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۴)صحابہ ؓ کے اعمال میں حدیث کی حفاظت صحابہ کے عمل میں اس انداز سے رہی کہ ان کے اعمال تعلیمات محمدی کی عملی تصویر سمجھے گئے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صراطِ مستقیم کی تعیین میں اپنے صحابہ کو بھی ہمیشہ ساتھ رکھا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم تکمیل شریعت کے کئی مدارج سے گزرے تھے،شریعت کی وہ آخری صورت کون سی ہے، جسے حضورﷺ کی قرأت علمی،کہا جاسکے اور شریعت قرار دیا جائے؟ وہ منفرد روایات سے نہیں صحابہ کے عمل سے معین ہوسکے گی، حضورﷺ اپنی شریعت قائمہ اوراپنی غیر منسوخ احادیث کی نشاندہی کے لیے معیار صحت حضرات صحابہ کا عمل ہی بتاتے رہے،حضورﷺ کی جس حدیث کے ساتھ صحابہ کا عمل ہوگا، وہی حدیث"شریعت باقیہ" ہوگی،یہ صرف صحابہ کا عمل ہے،جس کے ذریعہ حفاظت حدیث قائم ہوئی،حضورﷺ نے فرمایا؛کہ جب میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی تو صحیح راہ والے وہی ہوں گے،جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوں گے،فرمایا: "ماانا علیہ واصحابی" (یعنی جس طریقہ پر میں اور میرے صحابہ ہوں) معلوم ہوا کہ اعمال صحابہؓ حفاظت حدیث کے عملی پیمانے ہیں،آنحضرتﷺ سے کسی باب میں روایات مختلف منقول ہوں،تو صحابہ کے عمل سے ہی صحیح راہ عمل کا تعین ہوسکے گا۔ حافظ ابن عبدالبرمالکیؒ (۴۲۳ھ) نے امام مالکؒ (۱۷۹ھ) اور امام محمدؒ (۱۸۹ ھ) کا تاریخی فیصلہ ان الفاظ میں نقل کیا ہے: "روى محمد بن الحسن عن مالك بن أنس أنه قال إذاجاء عن النبي صلى الله عليه وسلم حديثان مختلفان وبلغنا أن أبابكر وعمر عملا بأحد الحديثين وتركا الآخر كان في ذلك دلالة أن الحق فيما عملا به"۔ (التمہید لما فی الموطا من، باب حدیث سابع زید بن اسلم مسند:۳/۲۵۳) ترجمہ: جب حضوراکرمﷺ سے دو مختلف روایتیں پہنچیں اورہمیں یہ بات بھی پہنچے؛کہ حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ نے ان میں سے ایک پر عمل کیا اور دوسری کو چھوڑا ہے،تو اس میں یہ راہ ملتی ہے؛کہ سنت قائمہ وہ ہے جس پر ان دونوں نے عمل کیا ہے۔ امام ابوداؤد السجستانی (۲۷۵ھ) صحاح ستہ کی معروف کتاب سنن ابی داؤد میں لکھتے ہیں: "إِذَاتَنَازَعَ الْخَبَرَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُظِرَ إِلَى مَاعَمِلَ بِهِ أَصْحَابُهُ مِنْ بَعْدِهِ"۔ (سنن ابی داؤد،باب من قال لا یقطع الصلاۃ شئی،حدیث نمبر:۶۱۸) ترجمہ: آنحضرتﷺ سے جب دو مختلف حدیثیں منقول ہوں تو دیکھا یہ جائے گا کہ آپ کے بعد آپ کے صحابہ نے عمل کس پر کیا؟۔ حافظ عبدالرحمن ابوزرعۃ الدمشقی(۲۸۱ھ) امام وکیع بن الجراح سے روایت کرتے ہیں؛کہ حدیث کے یاد کرنے اوراسے حفظ رکھنے پر عمل سے بھی مدد لی جاتی تھی؛کہ اس پر عمل کیا گیا اوروہ یاد رہ گئی،یہ عمل امت میں مسلسل رہا تو حدیث بھی مسلسل رہی، وکیع روایت کرتے ہیں: "کان یستعان علی حفظ الحدیث بالعمل بہ"۔ (تاریخ ابی زرعۃ:۱/۳۱۱) ترجمہ: حدیث کے حفظ کرنے میں عمل سے بھی مدد لی جاتی رہی ہے۔ امام ابوبکر جصاص رازی(۳۷۰ھ) کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ احادیث کے اختلاف کا حل عمل سلف کی روشنی میں کیا جانا چاہئے، فرماتے ہیں: "إذاكان متى روي عن النبي عليه السلام خبران متضادان وظهر عمل السلف بأحدهما كان الذي ظهر عمل السلف به أولى بالإثبات"۔ (احکام القرآن للجصاص،باب القول فی ھل ھی من اوائل السور:۱۸/۱) ترجمہ:جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دومختلف حدیثیں منقول ہوں اورسلف(صحابہ کرام) کا عمل ایک پر ہو تو جس پر سلف کا عمل پایا گیا وہ حدیث اثبات مسئلہ میں مقدم ہوگی۔ آنحضرتؐ نے صحابہ کرام کے کل اعمال حسنہ کو ستاروں کی روشنی بتا کر انہیں اپنی ذات گرامی سے وابستہ کرلیا،اب گویا ان کے اعمال حضورﷺ کی حدیث کے گرد حفاظت کا پہرہ دے رہے ہیں اوران کی پیروی حضورؐ کی پیروی ہی ہے،آپ نے ارشاد فرمایا: "أصحابي كالنجوم فبأيهم اقتديتم اهتديتم"۔ (مشکاۃ المصابیح، باب مناقب قریش وذکر،حدیث نمبر:۳۰۰۹) ترجمہ: میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں، جس کی بھی تم نے اقتدا کی ہدایت پائی۔ محدثین کے ہاں یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ میں ہے، تلقی بالقبول میں تو یہ اول درجہ کی روایات میں سے ہے۔ آثار صحابہ ساتھ نہ ہوں تو محدثین جمع حدیث کی جملہ کوششوں کو ضائع سمجھتے تھے،حضرت صالح بن کیسان کہتے ہیں، میں اور زہری جمع حدیث کی محنت میں اکٹھے تھے، جب ہم نے مرفوع احادیث لکھ لیں تو زہری کہنے لگے ہم آثار صحابہ بھی لکھیں گے،وہ لکھتے گئے اور میں نے انکار کردیا،وہ کامیاب ہوئے اور میری محنت ضائع ہوئی۔ "فكتب ولم أكتب، فأنجح وضيعت"۔ (مصنف عبدالرزاق:۲۵۹/۱۱) ترجمہ: وہ لکھتے رہے اورمیں نہ لکھ سکا، وہ کامیاب رہے اور میں ضائع ہوا۔