انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جنگ صفین کا ایک ہفتہ ماہِ محرم ۳۰ ھ کی آخری تاریخ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے لشکر کو حکم عام دے دیا کہ کل یکم ماہ صفر سے فیصلہ کن جنگ شروع ہوگی، ساتھ ہی یہ بھی اعلان کردیا کہ حریف جب تمہارے سامنے سے پسپا ہوتو بھاگنے والوں کا نہ تو تعاقب کیا جائے نہ ان کو قتل کیا جائے،زخمیوں کا مال نہ چھینا جائے،کسی لاش کو مثلہ نہ کیا جائے، عورتیں اگرچہ گالیاں بھی دیں، اُن پر کوئی زیادتی نہ کی جائے، اسی قسم کے احکام امیر معاویہؓ نے بھی اپنے لشکر میں جاری کردیئے، یکم صفر کو صبح سے لڑائی شروع ہوئی اُس روز اہل کوفہ نے اُشتر کی سرداری میں اوراہلِ شام نے حبیب بن مسلمہ کی سرداری میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا،صبح سے شام تک برابر ہنگامہ کا رزار گرم رہا، مگر کوئی فیصلہ شکست وفتح کی شکل میں نمودار نہ ہوسکا، دوسرے دن حضرت علیؓ کی طرف سے ہاشم بن عتبہ سوار وپیادہ لشکر لے کر نکلے اور اہل شام کی طرف سے ابو الاعور سلمی نے مقابلہ کیا، اُس روز بھی شام تک بڑی خونریز لڑائی جاری رہی اورکوئی فیصلہ نہ ہوا،تیسرے روز حضرت علیؓ کی طرف سے عمار بن یاسرؓ اورحضرت امیر معاویہؓ کی طرف سے عمرو بن العاصؓ لشکروں کو لے کر مقابل ہوئے،یہ لڑائی سابقہ دو دن کی لڑائیوں سے بھی زیادہ سخت وشدید تھی، حضرت عمار بن یاسرؓ نے شام کے قریب آخر میں ایسا سخت حملہ کیا کہ حضرت عمرو بن العاصؓ کو کسی قدر پسپا ہوجانا پڑا، تاہم آج بھی کوئی فیصلہ نہ ہوا، چوتھے روز حضرت معاویہؓ کی طرف سے عبیداللہ بن عمروؓ اور حضرت علیؓ کی طرف سے اُن کے صاحبزادے محمد بن الحنفیہ لشکر لے کر نکلے،اُس روز بھی خوب زور شور کی لڑائی ہوئی جب شام ہونے کو آئی تو عبید اللہ بن عمرؓ نے محمد بن الحنفیہ کو صفِ لشکر سے جُدا ہوکر مبارزہ کی لڑائی کے لئے للکارا،محمد بن الحنفیہ جوشِ شجاعت میں مقابلہ کے لئے نکلے، لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے گھوڑا دوڑا کر اورقریب جاکر محمد بن الحنفیہ کو واپس لوٹالیا،ان کے واپس ہونے کے بعد عبید اللہ بن عمر بھی لشکرِ شام کی طرف واپس چلے آئے،پانچویں روز حضرت علیؓ کی طرف سے ولید بن عتبہ نکلے اور صبح سے شام تک بڑی سخت لڑائی جاری رہی،چھٹے روز ادھر سے مالک اُشتراوراُدھر سے حبیب بن مسلمہ دوبارہ نبرد آزما ہوئے، اس روز بھی شام تک کی زور آزمائی وخونریزی نے کوئی نتیجہ پیدا نہیں کیا، ساتویں روز حضرت علی کرم اللہ وجہہ اورحضرت امیر معاویہؓ نے بذاتِ خود لشکر کو لڑائی پر آمادہ کیا،اُس روز بھی اگرچہ لڑائی سابقہ ایام کی نسبت زیادہ سخت ہوئی،مگر دونوں فریق میدان میں برابر کا جوڑ ثابت ہوئے۔ اس جنگِ ہفت روزہ ہر روز دونوں طرف سے نئے نئے سپہ سالار مقرر ہو ہوکر اپنی اپنی جنگی قابلیت کا اظہار کرتے رہے،چونکہ دونوں لشکروں کی تعداد بھی نوے اوراسی ہزار یعنی قریباً برابر ہی تھی اور طرفین کے لڑنے والوں میں بھی ایک ہی حیثیت اورایک ہی سی طاقت وشجاعت والے لوگ تھے،لہذا کسی کو نہ فتح حاصل ہوئی نہ شکست،البتہ اس بات کا اظہار ہوتا رہا کہ طرفین میں لڑائی کے لئے کافی جوش اور اظہارِ شجاعت کا کافی شوق ہے، یہ ہفتہ اسلام کے لئے بڑا ہی منحوس تھا کہ مسلمانوں کی تلواریں پوری تیزی کے ساتھ مسلمانوں کی گردنیں کاٹ رہی تھیں اور دشمنانِ اسلام اطمینان کے ساتھ مصروفِ تماشہ تھے،لیکن اس ہفتہ سے بھی زیادہ منحوس دو دن اورآنے والے تھے۔