انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت طلحہؓ کی علیحدگی لڑائی کے شروع ہی میں حضرت طلحہؓ اورحضرت زبیرؓ میدانِ جنگ سے جُدا ہوگئے تھے قبائل کے افسر اورچھوٹے چھوٹے سردار اپنی اپنی جمعیتوں کو لئے ہوئے حضرت عائشہؓ کی طرف سے مقابلہ پر ڈٹے ہوئے تھے،حضرت عائشہؓ خود اس کو شش میں مصروف تھیں کہ کسی طرح لڑائی رُکے اورصلح کی صورت پیدا ہو،لہذا اس طرف یعنی اہل جمل کی طرف فوج کو لڑانے والا کوئی ایک سردار نہ تھا،لڑنے والوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ہم لڑائی میں جو کوشش کررہے ہیں یہ حضرت ام المومنین کا منشاء اصلی ہے یا نہیں،حضرت ام المومنینؓ اوراُن کا تمام لشکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نسبت یہ خیال رکھتے تھے کہ انہوں نے صلح کی گفتگو کر کے ہم کو دھوکا دینا چاہا اور پھر ظالمانہ طور پر اچانک ہم پر حملہ کردیا، اس حالت میں وہ اپنے لشکر کو لڑنے اور مدافعت کرنے سے روک بھی نہیں سکتی تھیں،ادھر اہل بصرہ کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ جو خبریں ہم نے حضرت علیؓ کی نسبت پہلے سُنی تھیں کہ وہ اہل بصرہ کو قتل کرکے اُن کے بیوی بچوں کو باندی غلام بنالیں گے وہ صحیح تھیں،غرض دس ہزار سے زیادہ مسلمان دونوں طرف مقتول ہوئے اور آخر تک اصل حقیقت کسی کو معلوم نہ ہوئی کہ یہ لڑائی کس طرح ہوئی؟ ہر شخص اپنے فریقِ مقابل ہی کو ظالم اورخطاکار سمجھتا رہا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ چونکہ خود لشکر کی سپہ سالاری فرمارہے تھےلہذا ان کی طرف سے ایسے ایسے سخت حملے ہوئے کہ اہل جمل کو پسپا ہونا پڑا اورحضرت عائشہ صدیقہؓ کا جمل حضرت علیؓ کی حملہ آور فوج کی زد میں آگیا، اسی اونٹ کی مہار کعب کے ہاتھ میں تھی، وہی حضرت عائشہؓ کو مشورہ دے کر میدانِ جنگ کی طرف لائے تھے کہ شاید کوئی صلح کی صورت پیدا ہوجائے،جب حضرت ام المومنینؓ نے دیکھا کہ حملہ آور فوج کسی طرح نہیں رُکتی اوراونٹ کو بچانے کے لئے بصرہ والوں نے جو اول پسپا ہوگئے تھے ،از سر نو اپنے قدم جمالئے ہیں اور بڑے جوش وخروش کے ساتھ تلوار چل رہی ہے تو انہوں نے کعبؓ کو حکم دیا کہ تم اونٹ کی مہار چھوڑ کر قرآن مجید کو بلند کرکے آگے بڑھو اورلوگوں کو قرآن مجید کے محاکمہ کی طرف بلاؤ اور کہو کہ ہم کو قرآن مجید کا فیصلہ منظور ہے،تم بھی قرآن مجید کا فیصلہ مان لو،کعبؓ نے آگے بڑھ کر یوں ہی اعلان کیا،عبداللہ بن سبا کے لوگوں نے یک لخت اُن پر تیروں کی بارش کی اوروہ شہید ہوگئے،اس کے بعد اہل بصرہ میں اور بھی جوش ہوا اورحضرت عائشہؓ کے اونٹ کے ارد گرد لاشوں کے انبار لگ گئے،اہل بصرہ برابر قتل ہورہے تھے،لیکن حضرت عائشہؓ کے اونٹ تک حریف کو نہیں پہنچنے دیتے تھے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس کیفیت کو دیکھ کر فوراً سمجھ لیا کہ جب تک یہ ناقہ میدان جنگ میں نظر آتا رہےگا،لڑائی کے شعلے کبھی فرو نہ ہوں گے،حضرت عائشہؓ کا اونٹ لڑائی اورکشت وخون کا مرکز بنا ہوا تھا چاروں طرف سے حضرت عائشہؓ کے کجاوہ پر تیروں کی بارش ہورہی تھی اور وہ قاتلین عثمانؓ پر بددعاکررہی تھیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ اس ناقہ کو کسی طرح مارو جس وقت ناقہ گرا فورا لڑائی ختم ہوجائے گی،حضرت علیؓ کی طرف سے اُشتر جو بلوائیوں کا سرگروہ تھا،اُس وقت میدانِ جنگ میں بڑی بہادری سے لڑرہا تھا اسی طرح اوربھی بلوائی سردار اورسبائی لوگ خدمات انجام دے رہے تھے،حضرت علیؓ کی طرف سے پیہم کئی زبردست حملے ہوئے مگر اہل جمل نے ہر ایک حملہ کو بڑی ہمت وشجاعت کے ساتھ روکا حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اورمروان بن الحکم ان حملوں کو روکنے میں زخمی ہوئے،عبدالرحمن بن عتاب،جندب بن زہیر،عبداللہ بن حکیم وغیرہ حضرات جمل کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے جسم پر بہتر زخم آئے تھے،ناقہ کی مہار یکے بعد دیگرے لوگ پکڑتے جاتے اورشہید ہوتے جاتے تھے،یہاں تک کہ سینکڑوں آدمی ناقہ کی مہار پر شہید ہوگئے،بالآخر اہل جمل نے ایسا سخت حملہ کیا کہ ناقہ کے سامنے دُور تک میدان صاف کرلیا،حضرت علیؓ نے اپنی فوج کو پسپا ہوتے ہوئے دیکھ کر پھر حملہ کیا اورآگے بڑھایا ،کئی مرتبہ ناقہ کے سامنے لڑنے والوں کی صفیں آگے بڑھیں اور پیچھے ہٹیں بالآخر ایک شخص نے موقع پاکر ناقہ کے پاؤں میں تلوار ماری اورناقہ چلا کر سینے کے بل بیٹھ گیا۔ اُس وقت حضرت قعقاع بن عمروؓ ناقہ کے قریب پہنچ گئے تھے،ناقہ کے گرتے ہی اہل جمل منتشر ہوگئے اورحضرت علیؓ کے لشکر نے حملہ کرکے ناقہ کا محاصرہ کرلیا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے محمد بن ابی بکرؓ کو جو اُن کے ساتھ تھے،حکم دیا کہ جاکر اپنی بہن کی حفاظت کرو اوران کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچنے پائے، قعقاع بن عمروؓ،محمد بن ابی بکرؓ اورعمار بن یاسرؓ نے کجاوہ کی رسیاں کاٹ کر کجاوہ کو اٹھا کر لاشوں کے درمیان سے الگ لے جاکر رکھا اورپردہ کے لئے اس پر چادریں تان دیں،حضرت علی کرم اللہ وجہہ،خود تشریف لائے اورقریب پہنچ کر سلام علیک کے بعد کہا: اماں جان !آپ کا مزاج بخیر ہے؟ حضرت عائشہؓ سے فرمایا: خدائے تعالیٰ آپ کی ہر ایک غلطی کو معاف کرے،حضرت عائشہؓ نے فرمایا: خدا تمہاری بھی ہر ایک غلطی کو معاف کرے،اس کے بعد سردارانِ لشکر یکے بعد دیگرے حضرت ام المومنینؓ کے سلام کو حاضر ہوئے، حضرت قعقاعؓ سے حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ کاش میں آج کے واقعہ سے بیس برس پہلے مرجاتی،حضرت قعقاعؓ نے جب حضرت علیؓ سے اس قول کو روایت کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ کاش میں آج سے بیس برس پہلے مرجاتا۔ اس جنگ کا نام جنگِ جمل اس لئے مشہور ہوا کہ حضرت عائشہؓ جس جمل پر سوار تھیں وہی جمل لڑائی کا مرکز بن گیا تھا، اس لڑائی میں حضرت عائشہؓ کی طرف سے لڑنے والوں کی تعداد تیس ہزار تھی جس میں سے نو ہزار آدمی میدانِ جنگ میں کام آئے،حضرت علیؓ کی فوج کی تعداد میدانِ جنگ میں بیس ہزار تھی جس میں سے ایک ہزار ستر آدمی کام آئے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تمام مقتولین کے جنازہ کی نماز پڑھی،سب کو دفن کرایا،لشکر گاہ اورمیدانِ جنگ میں جو مالِ و اسباب تھا،اس کے متعلق منادی کرادی کہ جو شخص اپنے مال واسباب کی شناخت کرے وہ لے جائے جب شام ہوگئی تو حضرت ام المومنینؓ کو محمد بن ابی بکرؓ ان کے بھائی نے بصرہ میں لے جاکر عبداللہ بن خلف خزاعی کے مکان میں صفیہ بنت الحرث بن ابی طلحہؓ کے پاس ٹھہرایا،اگلے دن حضرت علیؓ بصرہ میں داخل ہوئے،تمام اہل بصرہ نےا ٓپ کی بیعت کی،اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضرت ام المومنینؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے،چونکہ عبداللہ بن خلف اس معرکہ میں کام آگئے تھے،لہذا عبداللہ بن خلف کی والدہ نے حضرت علیؓ کو دیکھ کر بہت کچھ سخت و سُست کہا،مگر حضرت علیؓ نے کسی بات کا جواب نہیں دیا،بعض ہمراہیوں نے کچھ گراں محسوس کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ عورتیں چونکہ ضعیف ہوتی ہیں اس لئے ہم تو مشرکہ عورتوں سے بھی در گذر ہی کیا کرتے ہیں اوریہ تو مسلمان عورتیں ہیں، ان کی ہر ایک بات کو برداشت کرناچاہئے،حضرت ام المومنینؓ سے حضرت علیؓ نے بڑی تعظیم وتکریم کا برتاؤ کیا اور اُن سے پوچھا کہ آپ کو کسی قسم کی تکلیف تو نہیں ہے؟پھر تمام معاملات میں ہر طرح صلح و صفائی ہوگئی،حضرت علیؓ نے بصرہ کا حاکم اور گور نر مقرر فرما کر محمد بن ابی بکرؓ کو حکم دیا کہ سامانِ سفر کی تیاری کریں؛چنانچہ یکم ماہ رجب ۳۶ھ کو ہر قسم کا سامانِ سفر درست کرکے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کو رؤساء بصرہ کی چالیس عورتوں اورمحمد بن ابی بکرؓ کے ہمراہ بصرہ سے روانہ کیا ،کئی کوس تک خود بطریق مشایعت ہمراہ آئے اوردوسری منزل تک حضرت حسن بن علیؓ پہنچانے آئے، ام المومنینؓ اول مکہ معظمہ گئیں اور ماہ ذی الحجہ مکہ میں رہیں،وہاں حج ادا کرکے محرم ۳۷ ھ میں مدینہ منورہ تشریف لے گئیں۔ جنگ جمل میں بہت سے بنو امیہ بھی شریک تھے اوراہلِ جمل کی طرف لڑے تھے،لڑائی کے بعد مروان بن الحکم ،عتبہ بن ابی سفیان،عبدالرحمن ویحییٰ برادرانِ مروان وغیرہ تمام بنو امیہ بصرہ سے شام کی طرف چل دیئے اورحضرت امیر معاویہؓ کے پا س دمشق میں پہنچے،حضرت عبداللہ بن زبیرؓ جو معرکہ جمل میں زخمی ہوگئے تھے،بصرہ میں ایک شخص ازدی کے یہاں پناہ گزیں ہوئے تھے حضرت عائشہؓ نے اپنے بھائی محمد بن ابی بکرؓ کو بھیج کر اُنہیں بُلوایا اور اپنے ہمراہ مکہ کو لے کر روانہ ہوئیں۔