انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قتلِ امین امین کے ہرایک لشکر کومامون کے سپہ سالاروں کے مقابلے میں شکست پرشکست ہوتی رہی اور مامون کے دوزبردست سپہ سالار طاہر بن حسین اور ہرثمہ بن اعین بغداد کی طرف دوسمتوں سے بڑھتے چلے آرہے تھے، اُدھر موصل، واسطہ، کوفہ، بصرہ، حجاز، یمن، حیرہ وغیرہ صوبے بھی سب قبضہ سے نکل چکے تھے، امین کی خلافت وحکومت صرف بغداد اور نواحِ بغداد تک محدود رہ گئی تھی، مسلسل ناکامیوں کے بعد اب رمضان سنہ۱۹۶ھ سے امین کے لیے نہایت ہی نازک اور خطرناک زمانہ شروع ہوگیا تھا، امین نے مجبور ہوکر طاہر کی فوج میں لشکریوں کے پاس خفیہ پیغامات بھیجے اور مال واسباب وانعامات کا لالچ دے کراپنے ساتھ ملانے کی سازش کی؛ چنانچہ طاہر کے لشکر سے جونہرصرصر کے کنارے مقیم تھا پانچ ہزار آدمی امین کے پاس بغداد میں چلے گئے اس کے بعد بعض فوجی سردار بھی امین سے جاملے، امین نے ان لوگوں کوجوطاہر کی فوج سے کٹ کرآگئے تھے، حسب لیاقت انعام واکرام سے معزز کیا اور ایک زبردست فوج مرتب کرکے طاہر کے مقابلہ کوروانہ کی، صبح سے شام تک لڑائی ہوتی رہی، آخرامین کے لشکرکوہزیمت ہوئی اور مفرور بھاگ کربغداد میں امین کے پاس پہنچے، امین نے ایک اور لشکر نئے آدمیوں کا جن میں شکست یافتوں میں سے ایک شخص بھی نہ تھا، مرتب کرکے دوبارہ صرصر کی طرف روانہ کیا، اُن کوبھی شکست حاصل ہوئی، اب طاہر اپنی فوج لے کرصرصر سے اور ہرثمہ اپنا لشکر لے کرنہروان سے بغداد کی طرف روانہ ہوئے، طاہر نے باب انبار پرڈیرہ ڈالا، ہرثمہ نے نہریمن پرمورچہ جمادیا، عبداللہ بن وضاح نے شاسیہ کی جانب اور مسیب بن زہیر نے قصر کلواذی کی جانب پڑاؤ ڈالا؛ اس طرح مامون کے سردارانِ فوج نے بغداد کا محاصرہ کرکے اہلِ بغداد پرعرصۂ حیات تنگ کردیا، ادھر امین نے بھی اپنے طلائی ونقرئی زیورات وظروف اور قیمتی سامان فروحت کرکے فوج کے روزینے تقسیم کیے اور مدافعت پرپوری کوشش صرف کی یہ محاصرہ قریباً سوا برس تک جاری رہا اس عرصہ میں اہلِ بغداد اور امین کے سپہ سالاروں نے جوجومصائب برداشت کیئے اور جس پامردی سے مقابلہ کیا وہ ضرور قابل تعریف ہے؛ مگریہ سب کچھ بے نتیجہ اور خلافِ عقل کام تھے۔ سعید بن مالک بن قادم امن حاصل کرکے طاہر کے پاس چلا آیا، طاہر نے اس کوخندقیں کھدوانے اور مورچوں کوآگے بڑھانے کا کام سپرد کیا، محاصرین میں ہرثمہ اور طاہر دونوں بڑے سردار تھے؛ مگرطاہر اپنی فتوحات اور معرکہ آرائیوں میں بکثرت کامیاب ہونے کے سبب زیادہ شہرت حاصل کرچکا تھا اور اس لیے وہی اس تمام فوج کا افسر اور سپہ سالارِاعظم سمجھا جاتا تھا، امین کی طرف سے قصرِ صالح اور قصرِ سلیمان بن منصور میں جوبغداد سے باہر دجلہ کے کنارے پرتھے چند سردار متعین تھے جومحاصرہ فوج کے دمدموں اور مورچوں کوتوڑنے کے لیے جنجنیقوں سے آتش باری اور سنگ باری میں مصروف تھے، طاہر کی طرف سے بھی ترکی بہ ترکی سنگ باری اور آتش زنی کا کام ہورہا تھا، رال کے جلتے ہوئے گولے اور پتھر طرفین سے پھینکے جاتے تھے، محاصر فوج جس قدر آگے بڑھ آتی تھی، خندقیں کھود کرمورچے بنالیتی تھی؛ اس طرح بیرونِ شہر سے دائرہ کوتنگ کرتے ہوئے فصیل شہر تک پہنچ کراور دروازوں کے ذریعہ یافصیل کوتوڑ کراندر داخل ہوئے؛ پھرہرمحلہ اور ہرحصہ میں قدم قدم پرمقابلہ کرنا پڑا، حتی کہ مدینۃ المنصور میں امین کومحصور کرلیا، غلہ اور ضروریاتِ زندگی کا باہر سے شہر میں آنا بند ہوگیا تھا، جیل خانے سے قیدی چھوڑ دیئے گئے تھے، شہر کے اوباشوں اور بدمعاشوں کوفوج میں بھرتی کرلیا گیا تھا، لوٹ مار، چوری، ڈاکہ زنی کا بازار بھی شہر میں گرم تھا، بااثر سردار اور بہادر سپہ سالار طاہر کی ریشہ دوانیوں اور لالچوں کے ذریعہ بتدریج امین کے پاس سے جدا ہوکر طاہر کے پاس آتے جاتے تھے، شرفاءِ شہر موقعہ پاکر شہر سے نکلتے جاتے تھے، بہت سے محلے ویران ہوگئے تھے، بنوقحطبہ، محمد بن عیسیٰ، یحییٰ بن علی، بن عیسی بن ہامان، محمد بن ابی عباس طائی یکے بعد دیگرے طاہر سے جاملے، جن مقاموں پریہ لوگ مدافعت پرمامور تھے وہ مقامات بھی طاہر کے سپرد کرتے گئے، امین نے مدافعت میں خوب استقلال دکھایا، آخر میں اُس نے محمد بن عیسیٰ بن نہیک کے سپرد اتمامِ جنگ کا اہتمام کردیا تھا، جس طرف عبداللہ بن وضاح کی فوج تھی اُس طرف اہلِ بغداد کی نئی بھرتی کی ہوئی فوج نے حملہ کرکے عبداللہ بن وضاح کو شکست دے کرشماسیہ پرقبضہ کرلیا، ہرثمہ یہ خبر سن کراُس طرف کمک کے لیے پہنچا، اتفاق سے ہرثمہ کوبھی شکست ہوئی اور گرفتار ہوگیا؛ مگراس کے ہمراہیوں نے دھوکہ دے کراس کورہا کرالیا، یہ حالت سن کرطاہر خود اُس طرف پہنچا اور ایک زبردست حملہ کرکے امین کے لشکرکوپسپا کیا اور عبداللہ بن وضاح کوپھراُس کے مورچہ پرقابض کرادیا۔ طاہر نے بتدریج اپنے لشکر کوتمام شہر میں پھیلادیا اور مدینۃ المنصور میں امین کومحصور کرلیا، امین نہایت صبرواستقلال سے محاصرہ کی سختیاں برداشت کرنے لگا، اراکینِ سلطنت میں سے صرف حاتم بن صفرہ حسن حریشی اور محمد بن ابراہیم بن اغلب افریقی اس کے ہمراہ تھے، محمدبن ابراہیم نے امین سے کہا کہ اس گئی گذری حالت میں بھی سات ہزار سوار امیرالمؤمنین کے ہرایک حکم کی تعمیل کوموجود ہیں، مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ امراواراکین کے لڑکوں کومنتخب کرکے اُن کا افسرمقرر کریں اور کسی دروازے سے بحالتِ غفلت نکل کرجزیرہ وشام کی طرف چلے جائیں اور ایک جدید سلطنت کی بنیاد ڈالیں، ممکن ہے کہ چند روز کے بعد عوام کا میلان طبع آپ کی جانب ہوجائے اور پھرکوئی اچھی صورت حصولِ مقصد کی پیدا ہوسکے، امین اس ارادے کے موافق عمل درآمد کرلیتا تویقیناً اُس کا انجام اُس انجام سے بہتر ہوتا جوہوا، طاہر کوجب امین کے اس ارادے کی اطلاع ہوئی تواُس نے سلیمان بن منصور اور محمد بن عیسیٰ بن نہیک کے پاس پیغام بھیجا کہ اگرتم نے امین کواس ارادے سے باز نہ رکھا توتمہارے لیے اچھا نہ ہوگا، ان لوگوں نے طاہر سے خائف ہوکر امین کی خدمت میں پہنچ کرعرض کیا کہ امیرالمؤمنین! کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اپنے آپ کوابنِ اغلب اور ابنِ اصفر کے قبضہ میں دے دیں یہ لوگ خائن اور غیرمعتبر ہیں، مناسب یہ ہے کہ آپ ہرثمہ بن اعین سے امن طلب کرکے اس کے پاس چلے جائیں، ابن اصفر کوجب یہ بات معلوم ہوئی کہ خلیفہ امین ہرثمہ بن اعین سے امن طلب کرکے اپنے آپ کواس کے سپرد کرنے پرآمادہ ہوگیا ہے تواس نے کہا کہ امیرالمؤمنین آپ اگرامان ہی طلب کرتے ہیں توطاہر سے طلب کریں، ہرثمہ کی امان میں نہ جائیں؛ مگرامین نے کہا کہ میں طاہر سے امان طلب نہیں کروں گا؛ چنانچہ ہرثمہ کے پاس پیام بھیجا گیا، اس نے بخوشی منظور کرلیا؛ مگرطاہر کوجب یہ بات معلوم ہوئی تواس کوبے حدناگوار گذرا کہ آخری فتح یابی کا سہرا ہرثمہ کے سرپربندھے گا، اس نے نہایت سخت پہرہ مقرر کردیا کہ امین محل سرائے سے نہ نکل سکے، ہرثمہ نے یہ تجویز کی تھی کہ رات کے وقت امین نکل کراُس کشتی میں جواس کی محل سرائے کے نیچے ہرثمہ لیے موجود ہوگا سوار ہوجائے اور ہرثمہ کی پناہ میں آجائے، طاہر کی طرف سے اس قسم کی تیاریاں دیکھ کراس نے امین کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ آج رات اور صبر کریں؛ کیونکہ آج صبح دریا کے کنارے مجھے کچھ ایسے علامات نظر آئے ہیں جن سے خطرہ پیدا ہوگیا ہے، امین نے جواباً کہلا بھیجا کہ میرے جس قدر ہواخواہ اور ہمدرد تھے وہ سب مجھ سے جدا ہوچکے ہیں، میں اب ایک ساعت بھی یہاں قیام نہیں کرسکتا، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں طاہر کواس کا علم نہ ہوجائے اور وہ مجھ کوگرفتار کرکے قتل نہ کردے۔ آخر۲۵/محرم الحرام سنہ۱۹۸ھ کووقتِ شب امین نے اپنے دونوں لڑکوں کوگلے لگایا پیارکیا اور اُن سے رُخصت ہوکر روتا ہوا دریا کے کنارے آیا اور ہرثمہ کی جنگی کشتی پرسوار ہوگیا، ہرثمہ نے جوکشتی پرموجود تھا، نہایت عزت واحترام سے کشتی میں سوار کرایا اور امین کے ہاتھ پربوسہ دیا اور کشتی چلانے والوں کوروانگی کا حکم دیا، جوں ہی کشتی روانہ ہوئی سامنے سے طاہر کی جنگی کشتیوں کا بیڑا سامنے آگیا اور ہرثمہ کی کشتی کا محاصرہ کرکے لڑائی شروع کردی، غوطہ زنوں نے کشتی میں سوراخ کردیا اور حملہ آوروں نے ہرطرف سے تیر باری کی، آخر کشتی میں پانی بھرآیا اور وہ ڈوب گئی، ہرثمہ کے بال پکڑکر ملاح نے نکالا اور ڈوبنے سے بچالیا، امین پانی میں تیرنے لگا، اس کوطاہر کے آدمیوں نے پکڑلیا، احمد بن سالم تیر کرکنارے تک پہنچ گیا، جب دریا سے باہر نکلا تووہ بھی طاہر کے آدمیوں کے ہاتھ میں گرفتار ہوا، احمد بن سالم کا بیان ہے کہ مجھ کوگرفتار کرکے طاہر کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے مجھ کوقید خانہ میں بھجوادیا، تھوڑی رات گذری ہوگی کہ طاہر کے سپاہیوں نے قید خانہ کا دروازہ کھولا اور امین کواندر داخل کرکے پھردروازہ بند کردیا، اس وقت امین صر پاجامہ پہنے ہوئے تھا، سرپرعمامہ اور شانوں پرایک بوسیدہ کپڑا تھا، میں إِنَّاللِّهِ وَإِنَّاإِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھ کررونے لگا، امین نے مجھ کوپہچان کرکہا کہ تم مجھ کواپنے گلے لگالو، میری طبیعت سخت متوحش ہورہی ہے، میں نے اس کوگلے لگایا، تھوڑی دیر کے بعد جب ذرا اس کے ہوش وحواس بجا ہوئے تومجھ سے مامون کا حال دریافت کیا، میں نے کہا وہ زندہ سلامت موجود ہے، امین نے کہا اُس کا وکیل تومجھ سے کہتا تھا کہ مامون مرگیا، غالباً اس سے اس کا مدعا یہ ہوگا کہ میں اس کی جنگ سے غافل ہوجاؤں، میں نے کہا خدا تعالیٰ آپ کے وزیروں سے سمجھے کہ انہوں نے آپ کودھوکا دیا؛ پھرامین نے آہِ سرد کھینچ کرکہا کہ کیوں بھائی؟ کیا یہ لوگ وعدۂ امان کوایفا نہ کریں گے؟ میں نے کہا: انشاء اللہ تعالیٰ ضرور پورا کریں گے، ہم دونوں یہی باتیں کررہے تھے کہ محمد بن حمید آیا دور سے کھڑا ہوا دیکھتا رہا اور امین کوپہچان کرواپس چلا گیا، اس کے بعد آدھی رات کے وقت چند عجمی ننگی تلواریں لیے ہوئے قید خانہ میں آئے، امین ان کودیکھ کرآہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا، اُن میں سے ایک نے لپک کرامین کوپکڑ کرزمین پرگرادیا اور ذبح کرکے سراُتارلیا، سرلے کرچلے گئے، صبح ہوئی تولاش کوبھی اُٹھا کرلے گئے۔ طاہر نے امین کا سرمنظرِعام پرلٹکادیا، جب لوگوں نے اچھی طرح دیکھ لیا تواپنے چچازاد بھائی محمد بن حسن بن زریق بن مصعب کے ہاتھ خاتمِ خلافت، عصا، چادر کے ہمراہ مامون کے پاس بھیج دیا اور شہر میں امن کی منادی کرادی، جمعہ کے دن مسجد جامع میں مامون کے نام کا خطبہ پڑھا اور امین کی برائیاں بیان کیں، موسیٰ وعبدا للہ پسرانِ امین کومامون کے پاس بھیج دیا، اس کے بعد طاہر کے لشکر نے اپنے روزینے طلب کیے؛ مگرجب وصول نہ ہوئے توسرکشی اور بغاوت پرآمادہ ہوگئے، طاہر کوبغداد سے اپنی جان بچاکر بھاگنا پڑا؛ پھراپنے خاص سرداروں کوبلاکر اور ایک جمعیت فراہم کرکے بغداد میں داخل ہوا اور اہلِ شہر اور اہلِ لشکر کواطاعت پرمجبور کیا۔