انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اصلاح وترمیم البتہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتھاد واقعہ کے مطابق نہ ہوتاتو کبھی اس پر نکیر کی جاتی اور فیصلہ کو بدل دیا جاتاتھا جیسا کہ: ۱۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمولِ مبارک تھاکہ بعدعصر کھڑے کھڑے ازواج مطہرات کے پاس تشریف لاتے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس معمول سے زیادہ ٹھہرتے اور شہدپیتے تو مجھ کو ایک دن رشک آیا، میں نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں وہ یوں کہے کہ مغافیر (یہ ایک قسم کی گوند ہے جس میں اچھی بو نہیں ہوتی ہے) نوش فرمایا ہے؟ چنانچہ ایساہی ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تو شہد پیا ہے، ان ازواج مطہرات نے عرض کیا: شاید کوئی مکھی اس کے درخت پر بیٹھ گئی ہوگی اور اس کے رس کو چوس لیا ہوگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھاکر فرمایا کہ میں پھر شہد نہیں پیئوںگا اور اس خیال سے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا دل نہ دکھے اس کے اخفاء کی تاکید فرمائی۔ (بخاری، حدیث نمبر:۴۵۳۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدکو جو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا یہ واقعہ کے مطابق نہیں تھا، کیونکہ کسی حلال چیزکو خودپر حرام کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ اس لئے سورۂ تحریم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور آپﷺ کے اجتھاد میں اصلاح وترمیم کرتے ہوئے یہ ہدایت دی گئی کہ آپ قسم کا کفارہ اداکیجئے اور شہد جو اللہ کی طرف سے جائز ہے اسے حرام نہ سمجھئے؛ چنانچہ اس آیت کے اترنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارہ ادا کیا۔ (تفسیرقرطبی: ۱۸/۱۸۵) ۲۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض رؤساء مشرکین کو دین کی دعوت دے رہے تھے، کہ اتنے میں حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم نابینا صحابی رضی اللہ عنہ حاضرخدمت ہوئے اور کچھ پوچھنا شروع کیا، یہ قطع کلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوارہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف التفات نہ فرمایا اور ناگواری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک پر اس کے آثار بھی ظاہر ہوئے۔ (تفسیردرمنثور: ۱۰/۱۹۶) اس واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتھاد یہ تھا کہ عبداللہ بن ام مکتوم تو اپنے آدمی ہیں، اسلام میں داخل ہیں، فروعی مسائل کی ان کو ضرورت ہے، جبکہ ان مشرکین کو اصول اسلام اور ایمان کی دعوت دی جارہی ہے، ظاہر ہے کہ یہ اہم ہے اور عبداللہ بن ام مکتوم کو بعدمیں بھی جواب دیا جاسکتا ہے، جس طرح کسی ڈاکٹر کے پاس دومریض آئے، ان میں سے ایک کو زکام ہو اور دوسرے کو ہیضہ ہوگیاہو، تو صاحب ہیضہ کا علاج مقدم ہوگا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین پر توجہ دی اور فی الحال عبداللہ بن ام مکتومؓ کو نظرانداز کردیا؛ لیکن آپﷺ کے اس اجتھادپر نکیر کی گئی اور سورۂ عبس کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، جس کا حاصل یہ ہے کہ مرض میں شدت اس وقت اہمیت کا سبب ہوتا ہے جب مریض علاج کا مخالف نہ ہو؛ ورنہ طالبِ علاج ہونا موجب اقدمیت واہمیت ہوگا، گو مرض خفیف ہو؛ الغرض اس خاص واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادکو تسلیم نہیں کیا گیا اور سورۂ عبس کی ابتدائی آیات کے ذریعہ اس پر تنبیہ کی گئی، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعدمیں حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ کی بڑی خاطر فرمایا کرتے تھے اور کہتے تھے: "انت الذی عاتبنی فیک ربی" (تفسیردرمنثور: ۲/۳۱۰) آپؓ ہی کی وجہ سے میرے رب نے مجھ پر عتاب کیا ہے۔