انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
نماز میں وساوس آجائیں تو اس نماز کا کیا حکم ہے؟ اور اس کے دور کرنے کا علاجنماز چھوڈنا ہے؟ خطرات کا دل میں آنا انسانی اختیار سے باہر ہے، لہٰذا اس سے نماز میں کچھ نقصان نہیں آتا، البتہ خطرہ کو خود قائم کرنا اور دل میں لانا اور اس سے دلچسپی لینا بیشک بُرا ہے، ایک صحابیؓ نے آنحضرت ﷺ سے اس کی شکایت کی تھی تو فرمایا کہ تم ان خطرات کی طرف بالکل التفات نہ کرو اور اپنی نماز میں لگے رہو، لہٰذا اگر خطرہ آجائے تو اس کی طرف توجہ نہ کی جائے بلکہ نماز میں قراءت اور تصحیح حروف کی طرف اپنی توجہ کرے، خطرہ کی وجہ سے اپنی نماز کو بیکار سمجھے اور چھوڑ بیٹھے تو شیطان اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گا، حضرت عثمان بن ابی العاصؓ نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا:" یا رسول اللہﷺ! شیطان نماز میں آکر مجھے حائل ہوجاتا ہے یہاں تک کہ پڑھنے میں بھی شک ڈال دیتا ہے، ایسے موقع پر کیا کروں؟ آپﷺ نے فرمایا: اس شیطان کا نام "خنزب" ہے، تم جانو کہ وہ آگیا ہے تو خدا سے پناہ چاہو اور تین مرتبہ بائیں طرف یعنی قلب کی جانب تھتکاردو"، حضرت عثمان بن ابی العاصؓ نے فرمایا کہ میں ایسا کیا تو الحمدللہ اس عمل کی برکت سے حق تعالیٰ نے اس وسوسہ کو دفع کردیا۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۵/۱۲۰، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی)