انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** آپﷺ کے اجتہاد کے فائدے یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتھاد میں کبھی کبھی غلطی بھی ہوجاتی تھی، اگرچہ اس پر برقرار نہیں رکھا جاتا تھا مگر اس کی اصلاح کی ضرورت ہوتی، کبھی خلافِ اولیٰ کام پر تنبیہ کی جاتی اور کبھی اس کی تبدیلی کی نوبت آتی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجتھاد کرنے سے ہی منع کیوں نہ کردیا گیا، تاکہ جو بات بھی امت کے سامنے آتی وہ بذریعہ وحی آتی اور اس طرح کے طول عمل کی ضرورت پیش نہ آتی، کیونکہ سلسلۂ وحی کے قائم ہونے کی وجہ سے یہ بات کچھ مشکل نہ تھی، واقعہ یہ ہے کہ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتھاد میں غلطی ہوئی ہے؛ لیکن پھربھی آپ صلی اللہ علیہ کو اجتھاد کا مکلف کیا گیا اس میں بڑے اہم فوائد مضمرہیں، مثلاً: ۱۔ امتِ مسلمہ کو اجتھاد کی ترغیب وتشویق دلانا مقصد تھا، کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش آمدہ امور میں اجتھاد سے کام لیا اور فیصلے فرمائے، اسی طرح فقہاء امت بھی پیش آمدہ مسائل کے سلسلہ میں حکم شرعی معلوم کرنے کی جدوجہد کریں؛ اگرچہ یہ مقصد قولی احادیث سے بھی پورا ہوسکتا تھا لیکن فعل سے مزید طمانینت حاصل ہوتی ہے، طرزاستدلال اور نوعیتِ قیاس نکھرکر سامنے آتا ہے، اس سے بعدکے مجتہدین کو بڑی رہنمائی ملتی ہے اور یہ واقعہ ہے کہ پیش آمدہ تمام مسائل کا حل نصوص میں صراحتاً نہیں مل سکتا؛ کیونکہ نصوص محدود ہیں اور پیش آنے والے واقعات وحوادث بے شمار ہیں، جن کا حل علماء امت نصوص سے ثابت شدہ اصول وضوابط اور مقاصدشرعیہ کو سامنے رکھ کرہی کرسکتے ہیں، اسی طرف علماء کے ذہن کو متوجہ کرنے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً اجتھاد کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجتھاد کا مکلف کیا گیا۔ ۲۔ امت کے ذہن میں اس بات کو راسخ کرنا تھا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم باوجود ہزارفضائل وکمالات کے بہرحال انسان ہیں اور بشری لوازمات سے آپ مستثنیٰ نہیں ہیں، جس طرح عام انسانوں سے خطاوصواب دونوں کا صدور ہوتا رہتا ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کبھی صواب اور کبھی خطا ہوتا ہے، البتہ عام انسانوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز یہ ہے کہ خطاپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برقرار نہیں رکھا جاتا، جیساکہ گذشتہ سطور میں اس کی تفصیل آچکی ہے، بسااوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصولِ شرعیہ کی روشنی میں صحیح فیصلہ نافذ کرنے میں حق بجانب ہوتے، مگر ایک فریق ناحق پر ہوتاتو اللہ تعالیٰ کو یہ گوارہ نہ ہوتا کہ نبی کے یہاں کوئی خلاف واقعہ فیصلہ ہوجائے، چنانچہ ایک مرتبہ ایک صاحب نے ایک شخص پر اپنے حق کا دعویٰ کیا، شخص مذکور نے جب انکار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی سے بینہ کا مطالبہ کیا، مدعی کے پاس بینہ نہیں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب اصولِ شرعیہ "البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر" شخص مذکور کو قسم کھانے کا مکلف کیا، وہ شخص قسم کھانے پر آمادہ ہوگیا اور قسم کھابھی لی کہ میرے پاس اس کا کوئی حق نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقدمہ کو خارج کرنے ہی والے تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا کہ قسم کھانے والا شخص جھوٹا ہے، اور اس پر مدعی کا حق ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق کی ادائیگی کا حکم دیا اور قسم کا کفارہ بھی ادا کرنے کی تاکید کی۔ (مسنداحمد: ۱/۲۹۶۔ حدیث نمبر:۲۶۹۵) یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ صرف یہ کہ اجتھاد کے حق بجانب ہونے کو بتاتا ہے بلکہ اس بات کوبھی واضح طورپرسے ثابت کرتا ہے کہ آپ کے زبان حق ترجمان سے واقع کے خلاف بھی فیصلہ کبھی نہیں ہوا، اگر ایسا ہوتاہوا نظرآیا تو فوراً وحی کے ذریعہ اس پر متنبہ کردیا گیا، ۳۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجتھاد کرنے کا حکم دینے اور پھر اجتہاد میں غلطی ہوجانے کی صورت میں اس پر تنبیہ کرنے میں یہ بھی حکمت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیغام خداوندی کے پہنچانے میں امین ہیں، انہوں نے احکام خداوندی کو بلاکم وکاست امت تک پہنچایا اور کسی حکم یاآیت کو نہیں چھپایا؛ اگر وہ کسی آیت کو چھپاتے تو ان آیات کو چھپاسکتے تھے جو خلافِ اولیٰ امور کے صادر ہوجانے پر اللہ تعالیٰ نے مشفقانہ عتاب نازل کیا تھا؛ مگر ان کوبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں چھپایا تو دیگر کسی حکم کو آپ کیسے چھپاسکتے تھے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی آیت کو چھپاتے تو حضرت زینب بنت حجش اور حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہم کے متعلق جو آیات نازل ہوئی تھیں ان کو چھپالیتے۔ (بخاری، حدیث نمبر:۶۸۷۰) ان تفصیلات سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ جن امورمیں وحی نازل نہیں ہوتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں اجتھاد فرمایا کرتے تھے اور ان میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فتاویٰ اور اجتھادی مسائل کو علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اعلام الموقعین کی آخری جلد میں جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے جس میں فقہی ترتیب کے لحاظ سے تقریباً ہرباب کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے جانے والے سوالات اور ان کے جوابات کو درج کیا ہے، جو مجموعی لحاظ سے ۷۰۲ سوالات اور ان کے جواب پر مشتمل ہے، مولانا عبدالرحمن صاحب حیدرآبادی مظاہری دامت برکاتہم ومتعنااللہ بطری حیاتہم نے "فتاوی الرسول" کے نام سے انہی روایات کی مختصر تشریح کی ہے، جس کا اردوترجمہ "فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم" کے نام سے شائع ہوچکا ہے؛البتہ اس میں احادیث کی تخریج نہیں کی گئی ہے؛ بلکہ علامہ ابن قیمؒ کے اجمالی حوالوں پر اکتفا کیا گیا ہے۔ اگر ان احادیث کی تخریج اور مزید تشریح بھی ہوجائے تو اس کی افادیت دوچند ہوسکتی ہے، کاش کوئی جواںہمت اس کیلئے وقت فارغ کرے اور اس خدمت کو انجام دے۔ واللہ الموفق وھوالمعین۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور اجتھاد قرآن وحدیث میں جب پیش آمدہ مسائل کا حکم صراحتاً نہ ملتا تو صحابہ کرام اپنے اپنے اجتھاد ورائے سے فتوی دیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت پرہی مبنی ہوگا، اور یقینا اس سے ان کی تربیت بھی مقصود ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اجتھاد کیا ہے۔ اس کی واضح مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں غزوۂ بنوقریظہ کے موقع سے بنوقریظہ کے معاملہ میں حضرت سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ کرنا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ فیصلہ فرمایا: "تقتل مقاتلتہم وتسبی ذراریہم" (اسدالغابہ: ۱/۴۴۲) ان کے جوانوں کو قتل کردیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام باندی بنالیا جائے۔ حضرت سعدؓ کے اجتھاد کی تصویب کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خداکا بھی یہی فیصلہ ہے۔ (حوالہ سابق) اسی طرح امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مقدمہ آیا، آپﷺ نے حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو اس کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا، انہوں نے معذرت کرنی چاہی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور فرمایا کہ اگر صحیح فیصلہ کروگے تو دس نیکیاں ملیں گی اور اگر کوشش کے بعد غلطی ہوجائے تب بھی ایک نیکی تو ضرور ملے گی۔ (مسنداحمد: ۴/۲۰۵۔ حدیث نمر:۱۷۸۵۸) اسی طرح آپﷺ کی حیات میں الیکن ٓپ کی عدم موجودگی میں بھی صحابہ رضی اللہ عنہم نے اجتھاد کیا ہے؛ کیونکہ خود آپﷺ نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن جاتے ہوئے اجازت دی تھی کہ اگر قرآن وحدیث میں حکم نہ ملے تو اجتھاد سے کام لو۔ (ترمذی، ماجاء فی القاضی کیف یقضی، حدیث نمبر:۱۲۴۹) صحابہ نے آپﷺ کے ارشادپر عمل کیا، مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس یمن میں ایک لڑکے کے سلسلہ میں تین دعویدار پہنچے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو پہلے یہ کوشش کی کہ وہ دوسرے کے حق میں دستبردار ہوجائیں، لیکن جب کوئی اس پر آمادہ نہیں ہواتو قرعہ اندازی کرکے جس کے حق میں قرعہ نکلا اس کو لڑکا حوالہ کردیا اور باقی دونوں کے بارے میں کہا کہ وہ دونوں کو ایک ایک تہائی دیت ادا کرے، اس فیصلے کی اطلاع جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو اس پر بڑے خوش ہوئے؛ حتی کہ لوگوں کو ہنسی کی وجہ سے آپﷺ کے نواجذ بھی نظر آنے لگے۔ (الفقیہ والمتفقہ: ۲/۷۹۔ حدیث نمبر:۵۱۸) حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ عہدنبوی میں فتوی دیا کرتے تھے (طبقات ابن سعد: ۳/۳۳۵) حضرت سہیل ابن ابی خیثمہ راوی ہیں کہ عہدنبوی میں تین مہاجر صحابہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور تین انصاری صحابہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ اور حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ فتوی دیا کرتے تھے۔ (سیراعلام النبلاء: ۱/۴۵۱، ۴۵۲) اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو حضورﷺ کے زمانہ میں فتوی دیا کرتے تھے۔ (سیراعلام النبلاس: ۱/۸۶) غرضیکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی صحابہ اجتھاد سے کام لیتے تھے، اور اس کی بنیادپر فتاوی دیتے تھے؛ خواہ وہ منصب قضاء پر فائز ہوں یا نہ ہوں؛ اسی کو ملا محب اللہ بہاری اور علامہ آمدی وغیرہ نے ترجیح دی ہے (فواتح الرحموت مع مسلم الثبوت: ۲/۳۷۵۔ الاحکام للآمدی: ۱/۴۳۲) ذیل میں بعض اہل اجتھاد اور صاحبِ افتاء صحابہ کرام کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔