انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اقرار نامہ کی تحریر اورمیدانِ جنگ سے واپسی عمرو بن العاصؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوکر اقرار نامہ تحریر کرنے کے لئے عرض کیا؛چنانچہ اُسی وقت مندرجہ ذیل اقرار نامہ لکھا گیا: ’’یہ اقرار نامہ علی بن ابی طالبؓ اورمعاویہ بن ابی سفیانؓ کے درمیان علی بن ابی طالبؓ نے اہل کوفہ اوران تمام لوگوں کی طرف سے جو اُن کے ساتھ ہیں ایک منصف یا پنچ مقرر کیا ہے اور اس طرح معاویہ بن سفیانؓ نے اہلِ شام اوراُن تمام لوگوں کی طرف سے جو اُن کے ساتھ ہیں ایک پنچ مقرر کردیاہے، ہم خدا تعالی کی کتاب اوراُس کے حُکم کو قاضی قراردے کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ حُکم خُدا اورکتابِ خدا کے سوا دوسرے کو دخل نہ دیں گے،ہم الحمد سے لے کر والناس تک تمام قرآن شریف کو مانتے اوروعدہ کرتے ہیں کہ قرآن شریف جن کاموں کے کرنے کا حکم دے گا اس کی تعمیل کریں گے اورجن سے منع کرے گا اُن سے رُک جائیں گے، دونوںپنچ جو مقرر ہوئے ہیں ابو موسیٰ عبداللہ بن قیس اشعریؓ اورعمرو بن العاص ہیں، یہ دونوں جو کچھ کتاب اللہ میں پائیں گے اُسی کی موافق فیصلہ کریں گے اوراگر کتاب اللہ میں نہ پائیں گے تو سنتِ عادلہ جامعہ غیر مختلف فیہا پر عمل کریں گے‘‘۔ اس کے بعد حکمین یعنی ابو موسیٰ اشعریؓ اور عمرو بن العاصؓ سے اقرار لیا گیا کہ ہم خدائے تعالیٰ کو حاضر ناظر سمجھ کر کتاب اللہ اورسنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق صحیح فیصلہ کریں گے اورامّتِ مرحومہ کو جنگ وفساد اور تفرقہ میں مبتلا نہ کریں گے،اس کے بعد رمضان تک یعنی چھ مہینے کی مہلت حکمین کو دی گئی کہ اس مدت کے اندر اندر اُن کو اختیار ہے کہ جب چاہیں فریقین کو اطلاع دے کر مقام اوزج متصل دومۃ الجندل جو دمشق وکوفہ کے درمیان دونوں شہروں سے برابر فاصلہ پر ہے آکر اپنا فیصلہ سُنادیں اوراس عرصہ میں زیر بحث مسئلہ کے متعلق اپنی تحقیقات کو مکمل اوراپنے خیالات کو مجتمع کرلیں،یہ بھی تجویز ہوا کہ جب کوفہ سے ابو موسیٰ اشعری اور دمشق سے عمرو بن العاصؓ مقام اوزج کی طرف فیصلہ سُنانے کے لئے روانہ ہوں تو حضرت علیؓ ابو موسیٰ اشعریؓ کے ہمراہ چار سو آدمی اورحضرت امیر معاویہؓ عمرو بن العاصؓ کے ہمراہ چار سو آدمی روانہ کریں،یہ آٹھ سو آدمی تمام مسلمانوں کے قائم مقام سمجھے جائیں گے جن کو حکمین اپنا فیصلہ سُنادیں گے۔ ان مذکورہ باتوں کے طے ہوجانے کے بعد قرارداد کے موافق حضرت علیؓ نے اپنے تمام لشکر سے اور حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے تمام لشکر سے اس بات کا اقرار کرلیا کہ فیصلہ سُنانے کے بعد حکمین کے جان ومال اور اہل وعیال سب محفوظ اور امن میں ہوں گے دونوں لشکروں نے بخوشی اس کا اقرار کیا، اس کے بعد اقرار نامہ کی دو نقلیں کی گئیں، جن پر حضرت علیؓ کی طرف سے اشعث بن قیس،سعد بن قیس ہمدانی، ورقا بن یحییٰ الجلبی،عبداللہ بن فحل عجلی،حجر بن عدی کندی،عبداللہ بن الطفیل عامری، عقبہ بن زیاد حضرمی،یزید بن خجیمہ تمیمی،مالک بن کعب ہمدانی نے بطور گواہ اورضامن کے دستخط کئے اور حضرت امیر معاویہؓ کی طرف سے ابوالاعور،حبیب بن مسلمہ،زعل ابن عمرو عذری، حمزہ بن مالک ہمدانی، عبدالرحمن بن خالد مخزومی،سمیع بن یزید انصاری،عتبہ بن ابو سفیان،یزید بن الحرعبسی کے دستخط ہوئے،جب دونوں نقلیں مکمل ہوگئیں تو ایک ابو موسیٰ اشعریؓ کو دی گئی اوردوسری عمرو بن العاصؓ کے سپرد کی گئی،حضرت علیؓ کی طرف سے جن لوگوں نے بطور ضامن دستخط کئے اُن میں مالک اُشتر سے دستخط کے لئے کہا گیا،لیکن اس نے دستخط کرنے سے صاف انکار کیا،اشعث بن قیس نے اصرار کیا تو دونوں میں سخت کلامی تک نوبت پہنچی مگر کوئی فساد نہ ہونے پایا،اقرار نامے حکمین کو سپرد کئے گئے اوردونوں لشکر میدان صفین سے سفر کی تیاری کرکے کوفہ اوردمشق کی جانب روانہ ہوئے،امیر معاویہؓ کوچ ومقام کرتے ہوئے بخیریت دمشق پہنچ گئے لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لئے اسی وقت سے ایک اور نئے فتنے کا دروازہ کھل گیا۔