انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غیب کی خبروں سے جزئیات مراد ہیں انبیاء کرام جب کبھی کوئی غیب کی بات بتلادیں تو یہ سب اخبار جزئیات ہی ہوں گی، اخبار بالمغیبات سے جملہ مغیبات مراد نہیں۔ اللہ رب العزت کسی مصلحت سے کسی غیب خاص پر کسی کو مطلع کردیں اس میں کوئی حرج نہیں، موجبہ کلیہ کے درجہ میں سے کوئی مخلوق غیب نہیں جانتی، غیب کی کنجیاں سب اللہ رب العزت کے پاس ہیں۔ "وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ"۔ (الانعام:۵۹) ترجمہ:اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں،جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اورقیامت کے بارے میں خاص طور پر فرمایا: "يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَااِلَاھُو"۔ (الاعراف:۱۸۷) ترجمہ:(اے رسول!)لوگ تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب برپا ہوگی؟کہدو کہ اس کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہے،وہی اسے اپنے وقت پر کھول کر دکھائےگا، کوئی اور نہیں۔ سو یہ بات صحیح ہے کہ قیامت کا علم ان جزئیات میں سے نہیں جس پر اللہ تعالی نے کسی کو اطلاع بخشی ہو یہ وہی جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی۔ حضرت امام شافعیؒ (م ۲۰۴ ھ) فرماتے ہیں: "وَأَنَّهُ حَجَبَ عَنْ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِلْمَ السَّاعَةِ"۔ (احکام القرآن للامام الشافعیؒ، باب قولہ تعالی: من کفر باللہ:۲۰۰/۱، مطبوعہ: دارالکتب العلمیہ بیروت) بیشک اللہ تعالی نے قیامت کا علم (کہ کب آئے گی) اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پردےمیں رکھا ہے۔ ائمہ اربعہ میں سے کسی نے بھی امام شافعیؒ کے اس عقیدہ سے اختلاف نہیں کیا، غیب کی خبریں اولیاء کرام کو بھی ملتی ہیں، ہم کہہ رہے تھے کہ اللہ تعالی انبیاء کو بھی غیبی خبروں سے نوازتے ہیں،لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اولیاء اللہ کو بھی بعض اوقات غیبی امور سے اطلاع دی جاتی ہے، البتہ ان خبروں میں خدائی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی اوران کے خبردینے پر قطع ویقین مرتب نہیں ہوتا جب تک کہ وہ بات واقع نہ ہوجائے، یہ صرف انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی شان ہے کہ وہ غیب کی کسی بات سے اطلاع دیں تو وہ قطع ویقین کی حامل ہو، خدا تعالی جب انہیں کسی غیب پر مطلع فرماتے ہیں، تو اس اطلاع دینے پر خدائی حفاظت سایہ فگن ہوتی ہے ناممکن ہے کہ اس میں آگے پیچھے کسی طرف سے دخل شیطانی ہو، یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا کہ نبی کی خبر غلط نکلے، خدا سے اس درجے کی خبر پانا ہر کسی کے بس میں نہیں، انبیاء پوری قوم میں اس باب میں ممتاز ہوتے ہیں،اللہ تعالی کی شان نہیں کہ ہر کسی سے اپنے احکام کہے وہ اپنی بات کہنے اوراپنے کلام کے لیے خاص افراد کو چنتا ہے وہ افراد اپنے ماحول میں فرد اورممتاز ہوتےہیں اور وہی جانتا ہے کہ اپنا پیغام کہاں اتارے اورکون اس امانت کے لائق ہوسکے گا: "اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ "۔ (الانعام:۱۲۴) ترجمہ:اللہ خوب جانتا ہے اس موقع کو کہ جہاں بھیجے اپنا پیغام۔