انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** روایت بالمعنی سے حتی الوسع احتراز آنحضرتﷺ نے فرمایا: "نضراللہ اِمرأ سمع منا حدیثاً فبلغہ کما سمعہ" (سنن دارمی:۷۶) اللہ تعالیٰ اس شخص کوسرسبز فرمائے جس نے میری کوئی بات سنی اسے یادرکھا اور اسے آگے اسی طرح نقل کیا جیسا کہ اس نے سنا تھا.... سوچاہئے کہ حدیث کواسی طرح روایت کرے جیسا کہ اس نے سنا، اس میں کوئی تبدیلی نہ کرے، صحابہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ اتباعِ لفظی کے قائل تھے؛ لیکن حضرت واثلہ بن الاسقعؓ روایت بالمعنی کوجائز سمجھتے تھے، فرماتے ہیں: "اذاحدثناکم بالحدیث علی معناہ فحسبکم"۔ (شرح السنۃ للبغوی:۱/۲۳۷) امام ابوحنیفہؒ گوروایت باللفظ پر زور دیتے ہیں؛ لیکن مفہوم کی روایت میں نفس جواز کے قائل تھے، ائمہ اربعہ اور اکثرمحدثین اور علماءِ اصول روایت بالمعنی کو جائز سمجھتے ہیں، امام سفیان ثوریؒ (۱۶۱ھ) کہتے ہیں: "ان قلت إنی حدثتکم کما سمعت فلاتصدقونی فانما ھو المعنیٰ" اگر میں کہوں کہ میں نے حدیث تمہارےسامنے اسی طرح روایت کی ہے جیسے میں نے سنی تھی تومیری تصدیق نہ کرنا جو میں روایت کررہا ہوں وہ تواس کا معنی ہے اور امام وکیعؒ (۱۹۷ھ) کہتے ہیں: "وان لم یکن المعنی واسعا فقد ھلک الناس" (شرح السنۃ للبغوی:۱/۲۳۸) اگر روایت بالمعنی کی گنجائش نہ ہو تو لوگ بے شک ہلاک ہوجائیں۔ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ فرماتے ہیں: "والأكثر على الجواز ومن أقوى حججها الإجماع على جواز شرح الشريعة للعجم بلسانهم للعارف..... الی نجواصاسترکیب ومفھومات الخطاب وعالم بالعربیۃ وماھو فی اسالیب الکلام" اکثرعلماء اس کے جواز کے قائل ہیں اور ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ عجمی ممالک کے لوگوں کے لیے ان کی زبانوں میں شریعت بیان کرنا بالکل جائز ہے، ہاں یہ اس کے لیے ہے جوخواص ترکیب کلام اور مفہومات خطاب کوپہچانتا ہو، عربیت کا عالم ہو اور اسالیب کلام میں مہارت رکھتا ہو، صدرالشریعۃ توضیح میں لکھتے ہیں؛ مگرحدیث محکمات میں سے ہو نہ کہ محتمل تاویل ہو اور نہ محتمل نسخ ہو توایسی حدیث کوبالمعنی روایت کرنا صرف ان حضرات کودرست ہے، جوعلم لغت سے کماحقہ واقف ہیں اور جس حدیث میں احتمال تاویل ہوتوایسی حدیثوں کوبالمعنی روایت کرنا صرف فقہاء ومجتہدین کے لیے جائز ہے اوراگر حدیث جوامع الکلم میں سے ہے یااس میں کوئی لفظ مشترک یامجمل یامتشابہ ہے تواس کوبالمعنی روایت کرنا کسی کے لیے جائز نہیں، حضرت قاسم بن محمد (۱۰۷ھ)، امام ابن سیرین (۱۱۱ھ)، رجاء بن حیوہ، امام مالک (۱۷۹ھ)، ابن علیہ، عبدالوارث، یزید بن زریع (۱۸۲ھ)، وہیب، امام احمد بن حنبل (۲۴۱ھ) اور یحییٰ بن معین (۲۳۳ھ) لفظی پابندی کے قائل تھے؛ لیکن امام حسن بصری، علامہ شعبی (۱۰۳ھ) اور ابراہیم نخعیؒ جیسے بزرگ اس کے جواز کے قائل تھے، دونوں میں راجح بات جواز کی ہے؛ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ روایت حدیث میں الفاظ کی پابندی کرنا افضل ہے اور یہی امام ابوحنیفہؒ کی رائے ہے؛ لیکن یہ بات بھی لائق غور ہے کہ یہ جواز اور عدم جواز کی بحث صرف قرونِ اولیٰ تک کے لیے تھی، اب جب کہ تالیفات حدیث مکمل ہوچکی ہیں اور مجموع ہائے حدیث چہار دانگِ عالم میں پھیل چکے ہیں، احادیث کا ترجمہ تودوسری زبانوں میں کیا جاسکتا ہے؛ لیکن ان روایات کو اب اور روایت بالمعنی سے گزارنا درست نہیں، حدیث کسی بھی زبان میں بیان کی جارہی ہے اس کا مضمون اور ترتیب وہی رہنی چاہیے جوموجودہ تالیفات حدیث میں پائی جاتی ہے نہ انہیں اپنی طرف سے مختصر کرے نہ کسی روایت کواپنے مفہوم میں نقل کرے اور روایت بالمعنی کے جواز کواس پندرھویں صدی تک وسیع نہ کرے جہاں تک ہوسکے روایت بالمعنی سے احتراز کرے اور اسی میں احتیاط ہے۔