انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حدیث رسول سامنے آئے تواس سے بڑی سند نہ مانگے حضورﷺ کی حدیث پیش کردی جائے تومغرب زدہ لوگ بعض اوقات کہنے لگتے ہیں کہ یہ بات قرآن میں کہاں ہے؟ انہیں حدیث سے بڑی سند کی ضرورت ہوتی ہے؛ مگریہ بات صحیح نہیں ہے حدیث کوخود ایک بڑی دلیل سمجھنا چاہیے، جیسے اور دلیل کی حاجت نہیں نہ اس پر کسی بالاسند کا تقاضا کیا جانا چاہیے، حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: "يُوشِكُ الرَّجُلُ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يُحَدَّثُ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِي فَيَقُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مَاوَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَلَالٍ اسْتَحْلَلْنَاهُ وَمَاوَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاهُ أَلَّاوَإِنَّ مَاحَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَاحَرَّمَ اللَّهُ"۔ (ابنِ ماجہ،كِتَاب الْمُقَدِّمَةِ، بَاب تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ،حدیث نمبر:۱۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:قریب ہے کہ ایک شحص جس کے پاس میری حدیث بیان کی جارہی ہو اپنے صوفے پر ٹیک لگائے (بڑےتکبر سے) کہے ہمارے تمہارے لیے اللہ کی کتاب ہی ہے؛ اسی میں جسے حلال کیا گیا اسے ہم حلال سمجھیں گے اور جوچیز اس میں ہم حرام پائیں اسے ہی حرام سمجھیں گے، بیشک جوچیز اللہ کے پیغمبر نے حرام بتلائی وہ ایسے ہی ہے جیسے وہ چیز اللہ نے حرام بتلایا۔ معلوم ہوا کہ حضورﷺ تحلیل وتحریم سب امر الہٰی کے تحت ہی بیان فرماتے تھے، آپ اللہ کے نام پر کچھ بیان فرمادیں یااللہ کا نام لیئے بغیر حلال وحرام کی کوئی بات کہیں، سب کا منبع ومرکز وحی الہٰی ہے، متلو ہویاغیرمتلو پیغمبر کا اس میں اپنا دخل نہیں ہوتا؛ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہےکہ صحابہ کرامؓ حضورﷺ کی فرمائی ہوئی تمام باتوں کوقرآن کے اس فیصلے کی رو سے "وَمَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا" (الحشر:۷) قرآنی تعلیمات ہی سمجھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک شخص کوسلے ہوئے کپڑوں میں محرم دیکھا تومنع فرمایا، اس نے قرآن کریم سے دلیل پوچھی توآپ نے یہی آیتِ کریمہ پڑھی کہ جوچیز تمھیں رسول دے اُسے لے لو اور جس چیز انہوں سے اس نے روکا اُس سے رُک جاؤ۔ (مواہب الرحمن، پارہ:۲۸، صفحہ نمبر:۱۲۷۔ ترجمان السنہ، جلد:۱) اسی طرح آپ نے ایک مسئلہ کے بارے میں حدیث پڑھی توایک عورت نے ایسا ہی سوال کیا آپ نے پھروہی آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی، یعنی یہ کہ قرآن کی رُو سے پیغمبر کی ہربات تمہارے لیے سند ہے۔ (مشکوٰۃ شریف:۳۸۱) اس قسم کی روایات پتہ دیتی ہیں کہ صحابہ کرامؓ حضورﷺ کی بات کوخدا کی بات ہی سمجھتے تھے، جب حدیث کے پیش ہونے پر قرآن کی سند طلب کرنا بے فائدہ ہے توجولوگ حدیث پیش ہونے کے بعد پھر اس پر عقلی دلائل مانگتے ہیں وہ مقام حدیث سے کس قدر بے خبر ہیں، حق یہ ہے کہ صحیح حدیث سامنے آجائے توکوئی اور سند مانگنے کا تصور بھی ذہن میں نہ آنا چاہیے۔ آنحضرتﷺ نے مذکورہ بالا حدیث میں منکرحدیث کا نقشہ جس صورت میں کھینچا ہے اس سے اس کی تکبر کی حالت عیاں ہے، معلوم ہوا کہ سند حدیث پر اکتفا نہ کرنا متکبرین کا شعار ہوگا، ایک طریق میں یہ الفاظ بھی ہیں: "أَلَايُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ"۔ (ابوداؤد،كِتَاب السُّنَّةِ، بَاب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ ،حدیث نمبر:۳۰۸۸، شاملہ، موقع الإسلام) خبردار رہو قریب ہے کہ ایک سیرشدہ (امیر) آدمی اپنے صوفے پر ٹیک لگائے کہے؛ تمھیں اسی قرآن کی پابندی کرنی ہے جواس میں حلال ہے اسے ہی حلال جانور اور جو اس میں حرام ہے اسے ہی حرام سمجھو۔ حضرت عرباض بن ساریہؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے یہ بھی فرمایا: "أَيَحْسَبُ أَحَدُكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ قَدْ يَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلَّامَافِي هَذَا الْقُرْآنِ"۔ (ابوداؤد،كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ، بَاب فِي تَعْشِيرِ أَهْلِ الذِّمَّةِ إِذَا اخْتَلَفُوا بِالتِّجَارَاتِ ،حدیث نمبر:۲۶۵۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:کیا تم میں سے کوئی شخص صوفے سے ٹیک لگائے اس گمان میں ہوگا کہ حرام صرف وہی کچھ ہے جوقرآن میں ہے۔