انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قریش کی مخالفت ایمان لانے اورمسلمان ہوجانے والوں میں کچھ لوگ غلام تھے اورکچھ ایسے تھے جو اپنے قبیلہ کا زور اوررشتہ داروں کی جماعت نہ رکھنے کے سبب بہت ہی کمزور سمجھے جاتے تھے،ایسے لوگوں کو اسلام سے مرتد بنانے کے لئے جسمانی ایذائیں شروع کی گئیں،جو لوگ کسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اوراُن کو عام لوگوں کا ایذا پہنچانا اس لئے اندیشہ ناک تھا کہ کہیں اُن کے قبیلہ والے حمایت پر اُٹھ کھڑے ہوں،اُن کے رشتہ داروں کو آمادہ کیا گیا کہ وہ خود اپنے مسلمان ہوجانے والے رشتہ دار کو سزا وایذا دے کر مرتد بنائیں،مسلمانوں کا تمسخر اُڑانے اوران کو بُرا کہنے کے لئے عام طور پر تیاری کی گئی کہ دوسروں کو اسلام میں داخل ہونے کی جرأت نہ رہے، ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی علانیہ تبلیغ شروع کی،اُدھر قریش نےپوری سرگرمی کے ساتھ مخالفت پر کمر باندھی ،حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ اُمیہ بن خلف کے غلام تھے،اُن کے اسلام لانے کا حال معلوم ہوا تو امیہ بن خلف نے ان کو قسم قسم کی تکلیفیں دینی شروع کیں،گرم ریت پر لٹا کر چھاتی کے اوپر گرم پتھر رکھ دیا جاتا، مشکیں باندھ کر کوڑوں سے پیٹا جاتا،بھوکا کا رکھا جاتا، گلے میں رسی باندھ کر لڑکوں کے سپرد کیا جاتا وہ شہر مکہ کے گلی کوچوں میں اور شہر کے باہر پہاڑیوں میں لئے لئے پھرتے اورمارتے پیٹتے تھے، ان تمام ایذا رسانیوں کو حضرت بلال برداشت کرتے اوراحد احد کا نعرہ لگائے جاتے تھے،حضرت عمار اپنے والد یا سرؓ اوراپنی والدہ سمیہؓ کے ہمراہ مسلمان ہوگئے تھے،ابو جہل ان کو گونا گوں عذاب پہنچاتا تھا،حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ظالم ابو جہل نے نہایت بے دردی سے نیزہ مار کر شہید کردیا تھا، حضرت زنیرہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ابو جہل نے اس قدر مارا کہ مارتے مارتے اندھا کردیا،غرض بہت سے غلام اور لونڈیاں تھیں جن کو ایسی ایسی سخت وشدید سزائیں دی گئیں کہ اُن کے تصور سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں،مگر اسلام ایسی زبردست طاقت کا نام ہے کہ سنگدل کسی کو بھی مرتد بنانے میں کامیاب نہ ہوئے، حضرت عثمانؓ بن عفان قبیلہ بنو امیہ کے ایک امیر آدمی تھے،مسلمان ہوجانے کے سبب اُن کے چچا نے اُن کو رسیوں سے باندھ کر خوب مارا اورقسم قسم کی جسمانی ایذائیں پہنچائیں، حضرت زبیر بن العوامؓ کو ان کا چچا چٹائی میں لپیٹ کر ان کی ناک میں دھواں دیا کرتا تھا، حضرت ابو ذر غفاری کو قریش نے قرآن پڑھتے ہوئے سُن کر اس قدر مارا کہ مارتے مارتے بیہوش کرکے زمین پر ڈال دیا،قریب تھا کہ وہ اُن کو جان سے مارڈالتے، مگر حضرت عباس بن عبدالمطلب نے قریش کو یہ کہہ کر روکا کہ اس شخص کا قبیلہ بنو غفار تمہارے تجارتی قافلوں کے راستہ میں آباد ہے، وہ تمہارا ناک میں دم کردیں گے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو بھی اسی طرح صحنِ کعبہ میں مارتے مارتے بیہوش کردیا، حضرت خباب بن حارثؓ کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں،ایک مرتبہ خوب دہکتے ہوئے انگارے زمین پر بچھا کر اُن کو اُن انگاروں پر چٹ لٹادیا اور ایک شخس اُن کی چھاتی پر بیٹھ گیا کہ کروٹ نہ بدل سکیں، اُن کی کمر کی تمام کھال اورگوشت جل کر کباب ہوگیا،بعض صحابہؓ کو گائے یا اونٹ کے کچے چمڑے میں لپیٹ کر اور باندھ کر ڈال دیتے،بعض کو لوہے کی زرہ پہنا کر جلتی ہوئی آگ اورجلتے ہوئے انگاروں پر ڈال دیتے۔