انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** احد پر ایک نظر اگر چہ احد کی لڑائی میں اول اور آخر مسلمانوں ہی کی جیت ہوئی مگر درمیان میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جس سے ان کو سخت نقصان پہنچا، اس نقصان کے اسباب کیا تھے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ۱) اسلام نے مسلمانوں کو اتحاد اور اتفاق کے ساتھ رہنے کی تعلیم دی ہے، حضور اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ " مسلمان ایک عمارت کی طرح ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو طاقت بخشتا اور سہارا دیتا ہے ، دوسرے موقع پر آپﷺ نے فرمایا کہ : سب مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں ، جس طرح جسم کا کوئی عضو اگر تکلیف میں ہوتا ہے تو دوسرے عضو کو بھی چین نصیب نہیں ہوتا،مسلمانوں کے اتحاد کو باقی رکھنے کے لئے ان پر اپنے امیر (سردار)کی اطاعت ضروری قرار دی گئی ہے ، کسی وقت اور کسی حالت میں بھی ان کو اپنے سردار کے حکم سے منہ موڑنے اور اس کی فرمانبرداری کا عہد توڑنے کی اجازت نہیں دی گئی، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ! اپنے امیر کی اطاعت کرو خواہ وہ حبشی غلام ہی ہو۔ ۲) دوسری ضروری بات یہ ہے کہ مسلمان کے دل میں اﷲ ، رسول اور اس کے دین کی محبت سب پر غالب ہونی چاہیے، مال و دولت ، دوکان ، مکان ، شوہر ، بیوی ، ماں باپ اور اولاد کسی کی ان کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہ ہو،یہ سب چیزیں اﷲ تعالیٰ ہی کی دی ہوئی ہیں اس لئے اگر ضرورت پڑے تو انھیں اس کے راستہ میں قربان کرنے میں بھی تامل نہ ہونا چاہیے، نیکی کا اونچا مقام حاصل کرنے کے لئے اپنی سب سے زیادہ پیاری چیز کا اﷲ تعالیٰ کے راستہ میں قربان کرنا ضروری ہے، فرمایاگیا: " (مسلمانو) تم نیکی (کا درجہ ) ہرگز حاصل نہ کرسکوگے جب تک تم اپنی محبوب چیز کو ( اللہ کی راہ میں)خرچ نہ کرو اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کو اللہ ( خوب ) جانتا ہے" ( آل عمران : ۹۲ ) احد کی لڑائی میں بعض مسلمانوں سے اسلام کے ان دونوں حکموں کی تعمیل میں کمی ہوئی، پچاس تیر اندازوں کا دستہ جسے رسول اﷲ ﷺ نے درّہ کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا اپنے امیر کے حکم کے خلاف اپنی جگہ سے ہٹ گیا، انھوں نے حضورﷺ کی بات یاد نہ رکھی اور مال غنیمت لوٹنے میں لگ گئے ،یہ غلطی اگر چہ چند لوگوں سے ہوئی اور وہ بھی جان بوجھ کر نہیں؛ بلکہ غلط فہمی کی وجہ سے انھوں نے یہ سمجھا کہ جب لڑائی ختم ہوگئی تو درّہ کی حفاظت کی ضرورت کیا رہی؟ مگر ان کو اس غلطی کی یہ سزا دی گئی کہ تھوڑی دیر کے لئے ان کی فتح شکست سے بدل گئی اور ان کو اپنے ستّر آدمیوں سے ہاتھ دھونا پڑا،قرآن کریم میں اس واقع کا ذکر اس طرح کیاگیاہے: " اور (دیکھو ) اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا جبکہ تم اللہ کے حکم سے ان کو بے دریغ قتل کررہے تھے یہاں تک کہ تم جو کچھ چاہتے تھے اللہ نے تم کو دکھادیا ؛لیکن تم نے کمزوری دکھائی اور ( پیغمبر کے ) حکم کے بارے میں جھگڑا کیا ، بالآخر اس کے حکم کی نافرمانی کی ، تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے خواہش مند تھے اور کچھ لوگ آخرت کے طالب پھر تم کو ان لوگوں سے ہٹادیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے اور ( پھر بھی ) اللہ نے تمہارا قصور معاف کردیا اور اللہ ایمان والوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے" (سورہ آل عمران : ۱۹۲) یہاں پر یہ بات سونچنے کی ہے کہ جب صحابہ کرامؓ جیسے مقدس لوگوں کو بھی اپنی غلطی کا نتیجہ بھگتنا پڑتاہے اگر چہ ان کے اخلاص کی وجہ سے آگے ان کی پکڑ نہ ہو تو ہمارا اور آپ کا تو ذکر ہی کیاہے، (سیرت طیبہ - قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی)