انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اخلاق واعادات خلیفہ مامون الرشید تمام خاندان بنوعباس میں باعتبار حزم وعزم وحلم وعقل وشجاعت سب سے بڑھ کرتھا، وہ خود کہا کرتا تھا کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کوعمربن العاص کی اور عبدالملک کوحجاج کی ضرورت تھی؛ مگر مجھ کوکسی کی ضرورت نہیں ہے، اس پرشیعیت غالب تھی یعنی علویوں کوبہت قابل تکریم اور مستحقِ خلافت سمجھتا تھا؛ اسی لیے اس نے اپنے بھائی مؤتمن کومعزول کرکے علی رضا کوولی عہد بنایا اور اپنی بیٹی کی شادی کی، اس کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ خود خلعِ خلافت کرکے علی رضا کواپنے سامنے خلیفہ بنادے؛ مگرابتدائی دس برس گذرجانے کے بعد آخرعہدِ خلافت میں علویوں کے خروج اور سرکشیوں سے تنگ آکر اس کے خیالات میں تغیر آگیا تھا، اس نے یہ بھی حکم جاری کرنا چاہا کہ کوئی شخص حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کوبھلائی کے ساتھ یاد نہ کرے؛ ورنہ مجرم قرار دیا جائے گا؛ مگرپھراس حکم کولوگوں کے سمجھانے سے جاری نہیں کیا۔ قرآن شریف کے پڑھنے کا بھی اس کوبہت شوق تھا، بعض رمضانوں میں اس نے روزانہ قرآن شریف ختم کیا ہے، مامون نے جب علی رضا کوولی عہد بنایا توبعض بنوعباس نے اس سے کہا کہ آپ امرِخلافت علویوں کے سپرد نہ کریں، مامون نے جواب دیا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے عہدِ خلافت میں بنوعباس کواکثر صوبوں کی حکومت پرمامور فرمایا تھا، میں اس کا عوض کرنا چاہتا ہوں اور ان کی اولاد کوحکومت وخلافت سپرد کرتا ہوں۔ مامون نے دارالمناظرہ میں جب ہرعقیدہ اور ہرمذہب کے لوگوں کوآزادانہ گفتگو کرنے کا موقعہ دیا اور علمی مباحث آزادی کے ساتھ ہونے لگیں تواس کی توجہ متکلمین اور معتزلہ کی طرف زیادہ مبذول ہوگئی؛ انہیں آزادانہ مذہبی بحث ومباحثے کا یہ نتیجہ ہوا کہ خلقِ قرآن کا مسئلہ جودرحقیقت بالکل غیرضروری اور ناقابل توجہ مسئلہ تھا، زیربحث آیا اور مامون خلقِ قرآن کا قائل ہوکر ان لوگوں پرجوخلقِ قرآن کے قائل نہ تھے، تشدد کرنے لگا، اس تشدد وسختی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مخالف عقیدہ کے علماء نے اور بھی زیادہ سختی سے مخالفت شروع کی اور طرفین کی اس مخالفت وعصبیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مامون کے بعد تک بھی علماء دین کواس بے حقیقت اور غیرضروری مسئلہ کی وجہ سے بڑی بڑی اذیتیں برداشت کرنی پڑیں۔ ابومحمدیزیدی کا بیان ہے کہ میں مامون کوبچپن میں پڑھایا کرتا تھا، ایک مرتبہ خدام نے مجھ سے شکایت کی کہ جب تم چلے جاتے ہوتویہ نوکروں کومارتا پیٹتا اور شوخی کرتا ہے، میں نے اس کوچھڑی سے مارا، مامون روتا اور آنسو پونچھتا جاتا تھا، اتنے میں وزیراعظم جعفر برمکی آگیا میں اُٹھ کرباہر چلاگیا اور جعفر مامون سے بات چیت کرکے اور اس کوہنسا کرچلا گیا میں پھرمامون کے پاس آیا اور کہا کہ میں تواتنی دیر ڈرتا ہی رہا کہ کہیں تم جعفر سے شکایت نہ کردو، مامون نے کہا کہ جعفر توکیا میں اپنے باپ سے بھی آپ کی شکایت نہیں کرسکتا؛ کیونکہ آپ نے تومیرے ہی فائدے کے لیے مجھ کومارا تھا؛ یحییٰ بن اکثم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مامون الرشید کے کمرہ میں سورہا تھا، مامون بھی قریب ہی مصروفِ خواب تھا، مامون نے مجھ کوجگاکر کہا کہ دیکھنا میرے پاؤں کے قریب کوئی چیز ہے، میں نے دیکھ کرکہا کہ کچھ نہیں ہے؛ لیکن مامون کواطمینان نہ ہوا اس نے فراشوں کوآواز دی؛ انھوں نے شمع جلاکر روشنی سے دیکھا تومعلوم ہوا کہ اس کے بچھونے کے نیچے ایک سانپ بیٹھا ہے، میں نے مامون سے کہا کہ آپ کے کمالوں کے ساتھ آپ کوعالم الغیب بھی کہنا چاہیے، مامون نے کہا معاذ اللہ یہ آپ کیا کہتے ہیں، بات صرف یہ تھی کہ میں نے ابھی خواب میں دیکھا ہے کہ کوئی شخص مجھ سے کہتا ہے کہ اپنے آپ کوننگی تلوار سے بچاؤ، میری فوراً آنکھ کھل گئی اور میں نے سوچا کہ کوئی حادثہ قریب ہی ہونے والا ہے، سب سے قریب بچھونا ہی تھا؛ لہٰذا میں نے بچھونے کودیکھا اور سانپ نکلا۔ محمد بن منصور کا قول ہے کہ مامون کہا کرتا تھا کہ شریف آدمی کی ایک یہ علامت ہے کہ اپنے آپ سے برتر کے مظالم سہے اور اپنے آپ سے کمتر پرظلم نہ کرے، سعید بن مسلم کہتے ہیں کہ مامون نے ایک مرتبہ کہا کہ اگرمجرموں کویہ معلوم ہوجائے کہ میں عفوکوکس قدر دوست رکھتا ہوں تواِن سے خوف دور ہوجائے اور ان کے دل خوش ہوجائیں۔ ایک مجرم سے مامون نے کہا کہ واللہ میں تجھ کوقتل کرڈالوں گا، اس نے کہا کہ آپ ذرا تحمل کوکام میں لائیں، نرمی کرنا بھی نصف عفو ہے، مامون نے کہا کہ اب تومیں قسم کھاچکا، اس نے کہا کہ اگرآپ خدا کے سامنے قسم توڑنے والے کی حیثیت سے پیش ہوں تواس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ ایک خون کی حیثیت سے پیش ہوں، یہ سن کرمامون نے اس کا قصور معاف کردیا، عبدالسلام بن صلاح کہتے ہیں کہ ایک روز میں مامون کے کمرے میں سویا، چراغ گل ہونے لگا، دیکھا تومشعلچی سورہا ہے، مامون خود اُٹھا اور چراغ کی بتی درست کرکے لیٹ گیا اور کہنے لگا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میں غسل خانے میں ہوتا ہوں اور یہ خدمتگار مجھ کوگالیاں دیتے اور طرح طرح کی تہمتیں مجھ پرلگاتے رہتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ میں نے سنا نہیں؛ لیکن میں سنتا ہوں اور معاف کرتا رہتا ہوں اور کبھی یہ بھی ظاہر نہیں کرتا کہ میں نے تمہاری باتیں سنی ہیں۔ ایک روز مامون الرشید دجلہ کی سیر کررہا تھا، ایک پردہ پڑا ہوا تھا، اس کی دوسری طرف کنارے پرملاح بیٹھے ہوئے تھے، جن کومامون کی موجودگی کا علم نہ تھا، ان میں سے ایک نے کہا کہ مامون یہ سمجھتا ہوگا کہ میرے دل میں اس کی قدر ہے؛ مگروہ اتنا نہیں سمجھتا کہ جوشخص اپنے بھائی کا قاتل ہو اس کی ذرا بھی قدر میرے دل میں نہیں ہوسکتی، مامون مسکراکر کہنے لگا کہ یارو تم ہی کوئی تدبیر بتاؤ کہ اس جلیل القدر شخص کے دل میں میری قدر ہوجائے۔ یحییٰ بن اکثم کا بیان ہے کہ میں مامون کے کمرہ میں لیٹا ہوا تھا؛ ابھی سویا نہ تھا، مامون کوکھانسی اُٹھی، اس نے اپنی قمیص کے دامن سے اپنا منہ دبالیا؛ تاکہ کوئی جاگ نہ اُٹھے، مامون کا قول ہے کہ مجھ کوغلبۂ حجت غلبۂ قدرت سے اچھا معلوم ہوتا ہے؛ کیونکہ غلبہ قدرت زوالِ قدرت کے وقت زائل ہوجائے گا؛ مگرغلبہ حجت کوکسی وقت زوال نہیں، مامون کہا کرتا تھا کہ بادشاہ کی خوشامد پسندی بہت بری ہے، اس سے بھی بری قاضیوں کی تنگ دلی ہے، جب کہ وہ معاملہ سمجھنے سے پہلے سرزد ہو؛ اس سے بھی بدتر معاملاتِ دین میں فقہا کی کم عقلی ہے، اس سے بدتر مال دار لوگوں کی کنجوسی، بوڑھے آدمیوں کا مذاق کرنا، جوانوں کا سستی کرنا اور جنگ میں بزدلی دکھانا ہے۔ علی بن عبدالرحیم مرَوروزی کہتے ہیں کہ مامون کا قول ہے کہ وہ شخص اپنی جان کا دشمن ہے جوایسے شخص کی مقاربت کا خواہاں ہوجواس سے دوری اختیار کرنا چاہتا ہے اور ایسے شخص کی تواضع کرے جواس کا اکرام نہ کرتا ہو اور ایسے شخص کی تعریف کرنے سے خوش ہوجواسے جانتا ہی نہ ہو، ہدبہ بن خالد کہتے ہیں کہ میں ایک روز مامون کے ساتھ کھانا کھانے میں شریک تھا، جب دسترخوان اُٹھایا گیا تومیں فرش پرسے کھانے کے ریزے چن کرکھانے لگا، مامون نے پوچھا کہ کیا تمہارا پیٹ نہیں بھرا ہے؟ میں نے کہا پیٹ توبھرگیا ہے؛ لیکن حدیث شریف میں آیا ہے کہ جوشخص دسترخوان اُٹھانے کے بعد کھانے کے بچے ہوئے ریزے اُٹھاکر کھائے وہ مفلسی سے امن میں رہے گا، مامون نے یہ سن کر مجھے ایک ہزار دینار عطا کیے، ایک مرتبہ ہارون الرشید حج کرنے کے بعد کوفہ میں آیا اور وہاں کے محدثین کوبلا بھیجا، تمام لوگ حاضر ہوگئے؛ مگرعبداللہ بن ادریس اور عیسیٰ بن یونس دوشخصوں نے حاضری سے انکار کیا، ہارون الرشید نے اپنے بیٹے امین ومامون کوان کی خدمت میں بھیجا یہ دونوں جب عبداللہ بن ادریس کے پاس گئے توانہوں نے امین کومخاطب کرکے سوحدیثیں پڑھ دیں، مامون بھی بیٹھا ہوا سنتا رہا، جب وہ خاموش ہوئے تومامون نے کہا؛ اگرآپ اجازت دیں تومیں ان احادیث کوسنادوں؛ چنانچہ انہوں نے اجازت دی اور مامون نے بلاکم وکاست تمام حدیثیں سنادیں۔ ابنِ ادریس مامون کی قوتِ حافظہ کودیکھ کرحیران رہ گئے، مامون الرشید نے ایک مرتبہ ذکر کیا کہ میں کسی شخص کے جواب سے ایسا بند نہیں ہوا، جیسا ایک مرتبہ اہلِ کوفہ نے مجھ کولاجواب کردیا، بات یہ تھی کہ انھوں نے آکر کوفہ کے عامل کی شکایت کی، میں نے کہا تم لوگ جھوٹ کہتے ہو؟ وہ عامل نہایت عادل ہے؛ انہوں نے کہا بے شک ہم جھوٹے اور امیرالمؤمنین سچے ہیں؛ لیکن اس عامل کے عدل کے لیے ہمارا ہی شہر کیوں مخصوص کیا گیا ہے، اس کوکسی دوسرے شہر میں بھیج دیجئے؛ تاکہ وہ شہر بھی اس کے عدل سے ویسا ہی فائدہ اُٹھائے جیسا ہمارا شہر اُٹھاچکا ہے، مجبوراً مجھے کہنا پڑا کہ اچھا جاؤمیں نے اسے معزول کیا۔ یحییٰ بن اکثم کا قول ہے کہ میں ایک رات مامون الرشید کے کمرے میں سویا، آدھی رات کے وقت مجھے پیاس لگی میں کروٹیں بدلنے لگا، مامون نے پوچھا کیا حال ہے، میں نے کہا پیاس لگی ہے، مامون اپنے بستر سے اُٹھا اور پانی لایا اور مجھے پلایا، میں نے کہا: آپ نے کسی خادم کوآواز کیوں نہ دی؟ مامون نے کہا کہ میرے باپ نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا سے اور انہوں نے عقبہ بن عامر سے سنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قوم کا سردار اُن کا خادم ہوتا ہے۔ خلیفہ مامون الرشید کے کاموں اور کارناموں میں سب سے زیادہ قابل تعریف اور قابل تذکرہ یہ بات ہے کہ اس نے ولی عہد بنانے میں نہایت نیک نیتی اور بلند ہمتی کا ثبوت دیا اور محبتِ پدری کے فریب میں نہیں آیا، جیسا کہ اس سے پہلے خلفاء ولی عہدی کے معاملے میں غلطی کا ارتکاب کرتے اور حکومتِ اسلامیہ کے لیے ولی عہدی کے متعلق وراثت کی لعنت کومضبوط واستوار بناتے رہے، مامون الرشید نے امام علی رضا کوولی عہد خلافت بناکر خاندانِ عباسیہ کوبالکل محروم رکھ کرنہایت آزادی کے ساتھ ایک بہترین شخص کا انتخاب اسی نمونہ پرکیا تھا، جیسا کہ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرِفاروق رضی اللہ عنہ کواپنا ولی عہد بنایا تھا؛ مگرمامون الرشید کوبہت جلد معلوم ہوگیا کہ عباسی لوگ اس پرکسی طرح بھی رضامند نہ ہوں گے اور فتنہ وفساد پرآمادہ ہوکر عالمِ اسلامی کومبتلائے مصیبت کردیں گے، امام علی رضا کی وفات نے مامون کے اس منشاء کوپورا نہ ہونے دیا، اس کے بعد اس نے اپنے خاندان میں سے اپنے بھائی ابواسحاق معتصم کوولی عہد بنایا اور اپنے بیٹے عباس کوجوہرطرح حکومت وخلافت کی قابلیت رکھتا تھا محروم رکھا، معتصم چونکہ عباس سے بھی زیادہ حکومت وسلطنت کی اہلیت رکھتا تھا؛ لہٰذا اس نے معتصم ہی کوانتخاب کیا اور اپنے بیٹے کی مطلق پرواہ نہ کی، مامون کے پیش رُوخلفاء صرف ایک ہی ولی عہد نہیں بلکہ دودو ولی عہدوں کے تعین کی بدعت کے مرتکب ہوتے رہے تھے، مامون اگران کی تقلید کرتا تومعتصم کے بعد اپنے بیٹے عباس کونامزد کرسکتا تھا اور اس طرح اس کواطمینان ہوسکتا تھا کہ معتصم کے بعد میرا بیٹا خلیفہ ہوگا؛ لیکن اس نے اس نامعقول حرکت کوبھی پسند نہیں کیا، اس معاملے میں مامون الرشید کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے۔