انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** پہلا سجدۂ تلاوت مکہ میں حضور ﷺ کی تبلیغ جاری تھی، قرآن نازل ہوتا تو حضور ﷺ کوشش فرماتے کہ انھیں سنائیں تا کہ ان کے دل نرم ہو جائیں اور کفّار ایمان لے آئیں، ان ہی ایام میں سورہ ٔ نجم نازل ہوئی ، حضور ﷺ نے صحن کعبہ میں قریش کے مجمع میں یہ سورت پڑھی ، جب سجدہ والی آیت آئی توآپﷺ نے سجدہ کیا، مجمع میں مسلم اور مشرک سب شریک تھے اور سب کے سب بے اختیار سجدہ میں چلے گئے، عتبہ بن ربیعہ ، ولید بن مغیرہ ، اور اُ میہ بن خلف نے اپنے غرور کی بدولت سجدہ نہیں کیا؛بلکہ زمین سے مٹی اٹھا کر ماتھے پر مل لی ، حضرت عبداللہؓ بن مسعودسے روایت ہے کہ یہ پہلی سورت ہے جو آپﷺ نے کفّار میں علی الاعلان سنائی اور یہ پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی۔ ( عبدالرؤف دانا پوری الصح السّیر ، مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ ) مہاجرین حبشہ کو اس واقعہ کی اطلاع اس طرح پہنچی کہ آپس میں مصالحت ہو گئی بلکہ سب مسلمان ہو گئے تو انھوں نے واپسی کا سونچا؛ لیکن مکہ کے قریب پہنچے تو حقیقت کچھ اور تھی اور وہا ں سے واپس جانا بڑا دشوار تھا، بعضوں نے ہمت کی اور باقی حسب دستور کسی نہ کسی کی پناہ میں مکہ میں داخل ہوئے تا کہ ظلم سے محفوظ رہیں۔ ( سیرت احمد مجتبیٰ ) انہی ایام میں ایک روز آنحضرت ﷺ کی مجلس میں سرداران قریش جن میں عتبہ، شیبہ ، ابو جہل اور امیہ بن خلف وغیرہ موجود تھے اور حضور ﷺ سے اسلام کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے ، حضور ﷺ کی بڑی تمنّا تھی کہ ان میں کو ئی مسلمان ہو جائے اس لئے آپﷺ کی زیادہ توجہ انہی کی طرف تھی، عین اس وقت حضرت عبداللہ ؓ بن اُم مکتوم تشریف لائے جو نا بینا ہونے کی وجہ سے یہ نہ جان سکے کہ محفل میں کون کون شریک ہیں ، انہوں نے آتے ہی حضور ﷺسے سوال کیا ،یا رسول اللہ مجھے وہ علم سکھائیے جو اللہ نے آپﷺ کو سکھایا ہے ، سرداران قریش کی موجودگی میں ایک نابینانووارد کا بات چیت میں دخل انداز ہونا حضور ﷺ کو پسند نہ آیا اور آپﷺ نے ان کی جانب توجہ کئے بغیر سرداران قریش ہی سے بات چیت جاری رکھی، اس مرحلہ پر سورۂ عبس نازل ہوئی: " وہ ترش رو ہوئے اور منہ موڑلئے ( صرف اس لئے )کہ ان کے پاس ایک نابینا آیا ، تمہیں کیا خبر شاید وہ سنور جاتے یا نصیحت سنتے اور اسے نصیحت فائدہ پہنچاتی، جو بے پرواہی کرتا ہے اس کی طرف تو تم پوری توجہ کرتے ہو ؛حالانکہ اس کے نہ سنورنے سے تم پر کوئی الزام نہیں اور جو شخص تمہارے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے اور وہ ڈر (بھی) رہا ہے تو اس سے تم بے رخی برتتے ہو،یہ ٹھیک نہیں ، قرآن تو نصیحت کی چیزہے جو چاہے اس سے نصیحت لے " (سورہ عبس : ۱ تا ۱۲) ان آیات کے نزول کے بعد حضورﷺ فوراً حضرت عبد اللہؓ بن ابن مکتوم کے مکان تشریف لے گئے اور انھیں اپنی مجلس میں واپس بلا لائے ، حضورﷺ نے اپنی چادر زمین پر بچھا کر انہیں بٹھایا،در اصل اس سورۃ میں تبلیغ کا یہ نکتہ سمجھایا گیا کہ اصل اہمیت طلب صادق کی ہے، با اثر اور بے اثر ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا