انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت اسماء ؓ سے مشورہ ماں حضرت اسماؓء کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا، اماں میرے ساتھیوں نے ایک ایک کرکے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے، حتیٰ کہ میرے لڑکے بھی مجھے چھوڑ کر چلے گئے ہیں، اب صرف چند فداکار باقی رہ گئے ہیں، لیکن ان میں بھی مقابلہ کی تاب نہیں ہے اور ہمارا دشمن ہمارے منشاء کے مطابق مطالبات پورے کرنے پر آمادہ ہے، ایسی حالت میں آپ کیا فرماتی ہیں؟ اس وقت حضرت اسماءؓ کی عمر سو برس سے متجاوز ہوچکی تھی ،جوان جوان بیٹوں اور پوتوں کے داغ اٹھا چکی تھیں، دل وجگر فگار ہورہے تھے، نامور بیٹوں میں صرف حضرت عبداللہ ؓ باقی تھے، ان حالات ،اس پیرانہ سالی اور ایسی خستہ دلی کی حالت میں صدیق اکبرؓ کی اولوالعزم اوربہادر بیٹی نے آمادہ بہ قتل بیٹے کو جو شریفانہ جواب دیا اس پر عورتوں کی تاریخ ہمیشہ فخر کرتے رہے گی، فرمایا، بیٹا تم کو اپنی حالت کا خود صحیح اندازہ ہوگا اگر تم کو اس کا یقین ہے کہ تم حق پر ہو، اورحق کی دعوت دیتے ہو تو جاؤ اس کے لئے لڑو کہ تمہارے بہت سے ساتھیوں نے اس پر جان دی ہے،لیکن اگر تمہارا مقصد دنیا طلبی ہے تو تم سے بڑھ کر برا کون خدا کا بندہ ہوگا کہ خود اپنے کو ہلاکت میں ڈالا اور اپنے ساتھ کتنوں کو ہلاک کیا اگر یہ عذر ہے کہ تم حق پر ہو اور اپنے اعوان وانصار کی کمزوری کی وجہ سے لاچار ہوگئے ہو تو یاد رکھو شریفوں اور دینداروں کا یہ شیوہ نہیں ہے تم کو کب تک دنیا میں رہنا ہے، جاؤ حق پر جان دیدینا زندگی سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ ماں کی زبان سے یہ بہادرانہ جواب سن کر کہا، اماں مجھے یہ خوف ہے کہ اگر بنی امیہ میرے قتل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو میری لاش کو مثلہ کرکے سولی پر لٹکائیں گے اوراس کی بے حرمتی کریں گے، بہادر ماں نے جواب دیا، بیٹا ذبح ہونے کے بعد بکری کی کھال کھینچنے سے تکلیف نہیں ہوتی جاؤ خدا سے مدد مانگ کر اپنا کام پورا کرو، یہ حوصلہ افزا کلمات سن کر ابن زبیرؓ کی ڈھارس بندھی اماں کے سرکا بوسہ دی کر کہا میرئی بھی یہی رائے ہے،پھر مختصر الفاظ میں اپنی صفائی پیش کرکے کہا کہ میں نے یہ صفائی اپنے نفس کی کمزور یوں سے مبرا ظاہر کرنے کے لئے نہیں پیش کی ہے بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کو تسکین رہے کہ آپ کے لڑکےنے ناحق بات کے لئے جان نہیں دی، ماں نے جواب دیا، مجھے امید ہے کہ میں ہر حالت میں صبر وشکر سے کام لوں گی اگر تم مجھ سے پہلے دنیا سے رخصت ہوگئے تو صبر کروں گی اوراگر کامیاب ہوئے تو تمہاری کامیابی پر خوش ہونگی اچھا اب جاؤ، دیکھو خدا کیا انجام دکھاتا ہے، ابن زبیرؓ دعا کے طالب ہوئے ماں نے ان کے حق میں دعا کی اورانہیں خدا کے سپرد کیا، پھر اپنے لئے صبر وشکر کی دعا کی اورحضرت عبداللہ سے کہا، بیٹا پاس آجاؤ کہ آخری مرتبہ تم سے رخصت ہولوں، ابن زبیرؓ نے کہا میں بھی آخری رخصتی کے لئے حاضر ہوا ہوں کہ اب دنیا میں یہ میرے آخری دن ہیں حضرت اسماؓء نے گلے سے لگاکر بوسہ دیا اور فرمایا،جاؤ اپنا کام پورا کرو،اتفاق سے گلے لگانے میں ابن زبیر کی زرہ پر ہاتھ پڑگیا، پوچھا ، بیٹا یہ کیا؟ جان دینے والوں کا یہ شیوہ نہیں ہے۔