انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مقامِ صحابہ ؓ قرآن پاک کی رُو سے جس طرح نبی کریمﷺ کا ادب بایں جہت کہ آپ اللہ کے رسول ہیں سب پرلازم ہے؛ اسی طرح صحابہ کرامؓ کا ادب بھی بایں جہت کہ آپ حضورﷺ کے صحبت یافتہ اور تربیت یافتہ ہیں سب پر لازم ہونا چاہیے، صحابہ کرام کی عزت وعظمت اور ان کے تقویٰ قلوب کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: "إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ"۔ (الحجرات:۳) ترجمہ:جولوگ دبی آواز سے بولتے ہیں رسول اللہ (ﷺ ) کے پاس وہی ہیں جن کے دلوں کوجانچ لیا ہے اللہ نے ادب کے واسطے سے ان کے لیے معافی ہے اور بڑا ثواب ہے۔ یہ خدا کی گواہی ہے کہ صحابہ کرامؓ کے دل تقویٰ کی دولت سے مالا مال تھے، اللہ نے انہیں پوری طرح جانچ لیا تھا، جوباتیں پہلے ان سے ہوچکیں اُن پر مغفرت کا وعدہ دے دیا اور آئندہ اعمال پر ان کے لیے اجر ہی اجر کی بشارت دی اور فرمایا کہ وہ بڑا اجر پائیں گے، تقویٰ کی بات اس طرح ان کے دلوں کے ساتھ لازم کی کہ گویا وہ ان کا جوہرذات ہے اور حق یہ ہے کہ وہی حضرات ان کے زیادہ حقدار تھے۔ قرآنِ کریم میں ہے: "وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا"۔ (الفتح:۲۶) اور لازم کردیا ان کے ساتھ کلمۂ تقویٰ اور وہی اس کے زیادہ حقدار تھے اور اس کے اہل تھے۔ کلمۂ تقویٰ سے ان کی بصیرت چمک اٹھی تھی اور ادب رسالت سے ان کی بصیرت آسمان عروج پر پہنچی تھی اب ان کا ہرفعل اور ہرقول حقیقۃً علمِ رسالت کا ہی ترجمان تھا اور جوکچھ ان کا اجتہاد تھا اس کا مدار بھی حضورﷺ کی ذاتِ گرامی ہی رہی تھی۔ قرآنِ کریم جس احترام سے صحابہ کرامؓ کا ذکر کرتا ہے اس سے لازم ہے کہ ان کی روایات، ان کے ارشادات اور ان کے اعمال کواسی عقیدت وبصیرت سے قبول کیا جائے جوعقیدت ان کی قرآن کریم مسلمانوں کے دلوں میں بٹھاتا ہے؛ اگران حضرات کی ذوات صدق وصفات حدیث کا موضوع نہ ہوتیں توقرآن کریم اس طرح انہیں آئینہ عظمت میں نہ اتارتا، حق یہ ہے کہ یہی حضرات حضورﷺ کے بعد آپ کے سنن ونوامیس کے حافظ ووراث تھے ؎ ومات رسول الله فيها وبعده بسنته أصحابه قد تأدبوا وفرق سبل العلم في تابعيهم وكل امرئ منهم له فيه مذهب (التمہیدلما فی الموطأ من المعانی:۱۸۲، المؤلف : أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي،المتوفى :۴۶۳ھ) ترجمہ:حضورﷺ کی وفات کے بعد آپ کے صحابہ آپ کے طریقے پر چلے اور علم کی راہیں ان کے تابعین میں بٹ گئیں اور ان میں سے ہرمرد ایک مستقل مسلک پر چلنے لگا۔