انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ نام،نسب حمزہ نام، ابو یعلی اورابو عمارہ کنیت ،اسداللہ لقب، آنحضرت ﷺ کے حقیقی چچا تھے،ماں کی طرف سے یہ تعلق تھا کہ ان کی والدہ ہالہ بنت وہب سرورکائنات ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ کی چچازاد بہن تھیں، پورا سلسلہ نسب یہ ہے،حمزہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی اسی نسبی تعلق کے علاوہ حضرت حمزہ ؓ آپ کے رضاعی بھائی بھی تھے،یعنی ابولہب کی لونڈی حضرت ثوبیہ ؓ نے دونوں کو دودھ پلایا تھا، سن میں حضور انور ﷺ سے دو برس بڑے تھے،شمشیر زنی،تیراندازی اورپہلوانی کا بچپن ہی سے شوق تھا،سیروشکار سے بھی غیر معمولی دلچسپی تھی؛ چنانچہ زندگی کا بڑا حصہ اسی مشغلہ میں بسر ہوا۔ اسلام دعوتِ توحید کی صداگو ایک عرصہ سے مکہ کی گھاٹیوں میں گونج رہی تھی ،تاہم حضرت حمزہ ؓ جیسے سپاہی منش کو ان باتوں سے کیا تعلق ؟ انہیں صحرانوردی اورسیروشکار سے کب فرصت تھی جو شرک و توحید کی حقانیت پر غورکرتے؛ لیکن خدانے عجیب طرح سے ان کی رہنمائی کی،ایک روز حسب معمول شکار سے واپس آرہے تھے کوہِ صفا کے پاس پہنچے تو ایک لونڈی نے کہا"ابو عمارہ! کاش تھوڑی دیر پہلے تم اپنے بھتیجے محمد کا حال دیکھتے ،وہ خانہ کعبہ میں اپنے مذہب کا وعظ کہہ رہے تھے کہ ابو جہل نے نہایت سخت گالیاں دیں اور بہت بری طرح ستایا، لیکن محمد ﷺ کچھ جواب نہ دیا اور بے بسی کے ساتھ لوٹ گئے،یہ سننا تھا کہ رگِ حمیت میں جوش آگیا،تیزی کے ساتھ خانہ کعبہ کی طرف بڑھے، ان کا قاعدہ تھا کہ شکار سے واپس آتے ہوئے کوئی راہ میں مل جاتا تو کھڑے ہوکر ضرور اس سے دودوباتیں کرلیتے تھے،لیکن اس وقت جوشِ انتقام نے مغضوب الغضب کردیا تھا، کسی طرف متوجہ نہ ہوئے اورسیدھے خانہ کعبہ پہنچ کر ابو جہل کے سر پر زور سے اپنی کمان دے ماری جس سے وہ زخمی ہوگیا، یہ دیکھ کر بنی مخزوم کے چند آدمی ابو جہل کی مدد کے لیے دوڑے اوربولے حمزہ شاید تم بھی بددین ہوگئے فرمایا"جب اس کی حقانیت مجھ پر ظاہر ہوگئی تو کون چیز اس سے باز رکھ سکتی ہے؟(مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۹۳)ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ خدا کے رسول ﷺ ہیں اورجو کچھ وہ کہتے ہیں سب حق ہے،خدا کی قسم اب میں اس سے پھر نہیں سکتا، اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دیکھ لو ابو جہل نے کہا ابو عمارہ کو چھوڑدو،خدا کی قسم میں نے ابھی اس کے بھتیجے کو سخت گالیاں دی ہیں۔ یہ اسلام کا وہ زمانہ تھا کہ آنحضرت ﷺ ارقم بن ابی ارقم کے مکان میں پناہ گزین تھے اورمومنین کا حلقہ صرف چند کمزورناتواں ہستیوں پر محدود تھا،لیکن حضرت حمزہ ؓ کے اضافہ سے دفعۃً حالت بدل گئی اورکفار کی مطلق العنان دست درازیوں اورایذارسانیوں کا سدِ باب ہوگیا،کیونکہ ان کی شجاعت وجانبازی کا تمام مکہ لوہا مانتا تھا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حمزہ ؓ) حضرت امیر حمزہ ؓ کے اسلام لانے کے بعد ایک روز حضرت عمرؓ نے آستانہ نبوی ﷺ پر دستک دی ،چونکہ شمشیر بکف تھے، اس لیے صحابہ کرام کو تردد ہوا؛لیکن اس شیرخدانے کہا،کچھ مضائقہ نہیں آنے دو اگر مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کردوں گا !غرض وہ اندر داخل ہوئے اورکلمہ توحید ان کی زبان پر تھا اور مسلمان جوشِ مسرت سے اللہ اکبر کے نعرے بلند کررہے تھے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزو ۳ :۹۲) مواخات مکہ کی مواخات میں حضرت خیرالانام ﷺ کے محبوب غلام حضرت زید بن حارثہ ؓ حمزہ ؓ کے اسلامی بھائی قرار پائے،ان کو حضرت زید ؓ سے اس قدر محبت ہوگئی تھی کہ غزوات میں تشریف لے جاتے تو ان ہی کو ہر قسم کی وصیت کرجاتے تھے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث) ہجرت بعثت کے تیرہویں سال تمام صحابہ کرام ؓ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے، جہاں ان کو زور بازو اورخداداد شجاعت کے جوہر دکھانے کا نہایت اچھا موقع ہاتھ آیا،چنانچہ پہلا اسلامی پھر یراان ہی کو عنایت ہوا اور تین آدمیوں کے ساتھ ساحلی علاقہ کی طرف روانہ کیے گئے کہ قریشی قافلوں کے سدِّ راہ ہوں،غرض وہاں پہنچ کر ابو جہل کے قافلہ سے جس میں تین سو سوار تھے مڈ بھیڑ ہوئی اورطرفین نے جنگ کے لیے صف بندی کی،لیکن مجدی بن عمرو الجہنی نے بیچ بچاؤ کرکے لڑائی روک دی اورحضرت امیر حمزہ ؓ بغیر کشت وخون واپس آئے۔ (طبقات ابن سعد حصہ مغازی) غزوات اسی سال ماہ صفر میں خود سرورِ کائنات ﷺ نے سب سے پہلی دفعہ تقریبا ساٹھ صحابہ کرام ؓ کے ساتھ قریش مکہ کی نقل وحرکت میں سدراہ ہونے کے لیے ابواپر فوج کشی فرمائی، حضرت حمزہ ؓ علمبردار تھے اور تمام فوج کی کمان ان کے ہاتھ میں تھی،لیکن قریش کا قافلہ آگے بڑھ چکا تھا، اس لیے جنگ وجدل کا موقع پیش نہ آیا ؛تاہم اس مہم کا سب سے زیادہ نتیجہ خیز اثر یہ تھا کہ بنو خمرہ سے ایک دوستانہ معاہدہ طے پاگیا۔ (طبقات بن سعد حصہ مغازی : ۳) اسی طرح ۲ھ میں غزوۂ عشیرہ پیش آیا،اس میں بھی علمبرداری کا طرۂ افتخار حضرت امیر حمزہ ؓ کے دستارفضل وکمال پر آویزاں تھا، لیکن اس دفعہ بھی کوئی جنگ واقع نہ ہوئی اورصرف بند مدلج سے امداد باہمی کا ایک عہد نامہ طے پایا۔ (ایضاً صفحہ ۴) غزوۂ بدر اسی سال بدر کا مشہور معرکہ پیش آیا،صف آرائی کے بعد عتبہ،شیبہ،اورولید نے کفار کی طرف سے نکل کر مبارز طلبی کی تو غازیانِ دین میں سے چند انصاری نوجوان مقابلہ کے لیے آگے بڑھے ؛لیکن عتبہ نے پکار کر کہا"محمد ﷺ !ہم نا جنسوں سے نہیں لڑسکتے،ہمارے مقابل والوں کو بھیجو ارشاد ہوا حمزہ ؓ، علی ؓ، عبیدہ ؓ،اٹھو اورآگے بڑھو حکم کی دیر تھی کہ یہ تینوں نبرد آزما بہادر نیز ے ہلاتے ہوئے اپنے حریف کے مقابل جاکھڑے ہوئے،حضرت حمزہ ؓ نے پہلے ہی حملہ میں عتبہ کو واصل جہنم کیا، حضرت علی ؓ بھی اپنے حریف پر غالب آئے،لیکن حضرت ابو عبیدہ ؓ اورولید میں دیر تک کشمکش جاری رہی، وہ زخمی ہوگئے تو ان دونوں نے ایک ساتھ حملہ کرکے اس کو تہ تیغ کردیا،(ابوداؤد :۱/ ۲۶۳) یہ دیکھ کر طعیمہ بن عدی جوشِ انتقام میں آگے بڑھا؛ لیکن شیر خدانے ایک ہی وار میں اس کو بھی ڈھیر کردیا، مشرکین نے طیش میں آکر عام ہلہ کردیا، دوسری طرف سے مجاہدین اسلام بھی اپنے دلاوروں کو نرغہ میں دیکھ کر ٹوٹ پڑے،نہایت گھمسان کارن پڑا، اسد اللہ حمزہ ؓ کے دستار پر شتر مرغ کی کلغی تھی اس لیے جس طرف گھس جاتے تھے صاف نظر آتے تھے،دونوں ہاتھ میں تلوار تھی اورمردانہ وار دودستی حملوں سے پرے کا پراصاف کررہے تھے،غرض جب تھوڑی دیر میں غنیم بہت سے قیدی اورمال غنیمت چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا تو بعض قیدیوں نے پوچھا، یہ کلغی لگائے کون ہے؟ لوگوں نے کہا حمزہ ؓ بولے،آج ہم کو سب سے زیادہ نقصان اسی نے پہنچایا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حمزہ ؓ) غزوۂ بنی قینقاع بنو قینقاع نام کی اطرافِ مدینہ میں یہودیوں کی ایک جماعت تھی،چونکہ یہ عبداللہ بن ابی سلول کے حلیف تھے،اس لیے رسول اللہ ﷺ سے دوستانہ معاہدہ طے پاگیا تھا،لیکن غزوۂ بدر کی کامیابی نے ان کے دلوں میں رشک وحسد کی آگ بھڑکادی، اورعلانیہ سرکشی پر آمادہ ہوگئے،چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس عہد شکنی کے باعث اسی سال ماہ شوال میں ان پر فوج کشی فرمائی اوربزوراطرافِ مدینہ سے جلاوطن کردیا، حضرت حمزہ ؓ اس معرکہ میں علمبرداری کے منصب پر مامور تھے۔ (طبقات ابن سعد حصہ مغازی: ۱۹) غزوۂ اُحد بدر کی شکست فاش نے مشرکین قریش کے تو سنِ غیرت کے لیے تازیانہ کاکام کیااورجوشِ انتقام سے برانگیختہ ہوکر ۳ھ میں قریش کا سیلاب عظیم پھر مدینہ کی طرف بڑھا،حضرت سرورِ کائنات ﷺ نے اپنے جان نثاروں کے ساتھ نکل کر کوہِ اُحد کے دامن میں اس کو روکا، ۷ شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی کفار کی طرف سے سباع نے بڑھ کر مبارز طلبی کی تو حضرت امیر حمزہ ؓ اپنی شمشیرخار اشگاف تو لتے ہوئے میدان میں آئے اورللکارکر کہا اے سباع!اے ام انمار مضغہ نجس کے بچے! کیا تو خدااوراس کے رسول سے لڑنے آیا ہے یہ کہہ کر اس زور سے حملہ کیا کہ ایک ہی وار میں اس کا کام تمام ہوگیا،(بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزہ ؓ)اس کے بعد گھمسان کی جنگ شروع ہوئی اس شیرخدانے دوبارہ کفر کے ٹڈی دل میں گھس کر کشتوں کے پشتے لگادیئے اورجس طرف جھک پڑے صفیں کی صفیں الٹ دیں،غرض اس جوش سے لڑے کہ تنہا تیس کافروں کو واصلِ جہنم کردیا۔ (اسد الغابہ تذکرہ حمزہ ؓ) شہادت حضرت امیر حمزہ ؓ نے چونکہ جنگ بدر میں چن چن کر اکثر صنادید قریش کو تہ تیغ کیا تھا اس لیے تمام مشرکین قریش سب سے زیادہ ان کے خون کے پیاسے تھے،چنانچہ جبیر بن مطعم نے ایک غلام کو جس کا نام وحشی تھا، اپنے چچا طعیمہ بن عدی کے انتقام پر خاص طورسے تیار کیا تھا اوراس صلہ میں آزادی کا لالچ دلایا تھا،غرض وہ جنگ اُحد کے موقع پر ایک چٹان کے پیچھے گھات میں بیٹھا ہوا حضرت حمزہ ؓ کا انتظار کررہا تھا،اتفاقاً وہ ایک دفعہ قریب سے گذرے تو اس نے اچانک اس زور سے اپنا حربہ پھینک کر مارا کہ دوٹکڑے ہوکر گرپڑے،( بخاری باب قتل حمزہ ؓ)اس شیر خدا کی شہادت پر کفار کی عورتوں نے خوشی و مسرت کے ترانے گائے، ابوسفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ نے ناک کان کاٹ کر زیور بنائے،نیز شکم چاک کرکے جگر نکالا اورچباچبا کر تھوک دیا،حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو پوچھا،کیا اس نے کچھ کھایا بھی ہے،لوگوں نے عرض کیا نہیں فرمایا، خداحمزہ ؓ کے کسی جزوکو جہنم میں داخل ہونے نہ دینا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول ثالث : ۷) تجہیز وتکفین اختتام جنگ کے بعد شہدائے اسلام کی تجہیز و تکفین شروع ہوئی، حضرت سرورِ کائنات ﷺ اپنے عم محترم کی لاش پر تشریف لائے،چونکہ ہندہ نے ناک کان کاٹ کر نہایت دردناک صورت بنادی تھی،اس لیے یہ منظر دیکھ کر بے اختیار دل بھر آیا،اورمخاطب ہوکر فرمایا تم پرخدا کی رحمت ہے،کیونکہ تم رشتہ داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے،نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے، اگر مجھے صفیہ کے رنج و غم کا خیال نہ ہوتا تو میں تمہیں اسی طرح چھوڑدیتا کہ درنداورپرند کھاجائیں،اورتم قیامت میں ان ہی کے شکم سے اُٹھائے جاؤ،خداکی قسم مجھ پر تمہارا انتقام واجب ہے،میں تمہارے عوض ستر کافروں کا مثلہ کروں گا،لیکن تھوڑی دیر کے بعدوحی الہی نے اس ناجائز انتقام کی ممانعت کردی، اس لیے کفارۂ یمین اداکرکے صبرو شکیبائی اختیار فرمائی۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث: ۷) حضرت صفیہ ؓ حضرت امیر حمزہ ؓ کی حقیقی بہن تھیں، بھائی کی شہادت کا حال سنا تو روتے ہوئے جنازہ کے پاس آئیں، لیکن آنحضرت ﷺ نے دیکھنے نہ دیا اورتسلی وتشفی دے کر واپس فرمایا، حضرت صفیہ ؓ اپنے صاحبزادہ حضرت زبیر ؓ کو دوچادریں دے گئی تھیں کہ ان سے کفن کا کام لیا جائے،لیکن پہلو میں ایک انصاری کی لاش بھی بےگور وکفن تھی، اس لیے انہوں نے دونوں شہیدانِ ملت میں ایک ایک چادر تقسیم کردی، اس ایک چادر سے سر چھپایا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اورپاؤں چھپائے جاتے تو سربرہنہ ہو جاتا تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ چادر سے چہرہ چھپاؤ اورپاؤں پر گھاس اورپتے ڈال دو،غرض سید الشہداء کا جنازہ تیار ہوا، سرورِ کائنات ﷺ نے خود نماز پڑھائی، اس کے بعد ایک ایک کرکے شہدائے اُحد کے جنازے ان کے پہلو میں رکھے گئے، اورآپ نے علیحدہ علیحدہ ہر ایک پر نماز پڑھائی اس طرح تقریبا نمازوں کے بعد غازیانِ دین نے بصد اندوہ والم اس شیر خدا کو اسی میدان میں سپرد خاک کیا۔ (ایضاً: ۹) آنحضرت ﷺ کا حزن وملال سرورِکائنات ﷺ کو اس سانحہ پر شدید قلق تھا،مدینہ منورہ تشریف لائے اوربنی عبداشہل کی عورتوں کو اپنے اپنے اعزہ واقارب پر روتے سنا تو فرمایا،افسوس!حمزہ ؓ کے لیے رونے والیاں بھی نہیں ،انصار نے یہ سن کر اپنی عورتوں کو آستانہ نبوت پر بھیج دیا،جنہوں نے نہایت رقت آمیز طریقہ سے سیدالشہداء ؓ پر گریہ وزاری شروع کی،اسی حالت میں آنحضرت ﷺ کی آنکھ لگ گئی،کچھ دیر کے بعد بیدار ہوئے تودیکھا کہ وہ اب تک رورہی ہیں،فرمایاکیاخوب یہ سب اب تک یہیں بیٹھی رو رہی ہیں،انہیں حکم دو کہ واپس جائیں اورآج کے بعد پھر کسی مرنے والے پر نہ روئیں،بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت سے مدینہ کی عورتوں کا یہ دستور ہوگیا تھا کہ جب وہ کسی پر روتی تھیں تو پہلے حضرت امیر حمزہ ؓ پر دوآنسو بہالیتی تھیں۔ قاتل سے بیزاری حضرت حمزہ ؓ کے قاتل وحشی ؓ اسلام قبول کرکے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئےتوآنحضرت ﷺ نے دیکھ کر پوچھا"کیا تم ہی وحشی ہو؟"عرض کیا ہاں فرمایا تم نے حمزہ ؓ کو قتل کیا تھا؟ بولے حضور کو جوکچھ معلوم ہوا وہ صحیح ہے، ارشاد ہو،کیا تم اپنا چہرہ مجھ سے چھپا سکتے ہو؟ غرض اسی وقت باہر آنا پڑا اور پھر تمام عمر سامنے نہ جاسکے، آنحضرت ﷺ کے بعد جب مسلیمہ کذاب پر فوج کشی ہوئی تو یہ بھی اس میں شریک ہوئے کہ شاید میں اس کو قتل کرکے حمزہ ؓ کے نقصان کی تلافی کرسکوں ،چنانچہ وہ اس ارادہ میں کامیاب ہوئے،(بخاری باب قتل حمزہ ؓ) اس طرح خدا نے ان کی ذات سے اسلام کو جس قدر نقصان پہنچایا تھا اس سے زیادہ فائدہ پہنچایا۔ اخلاق حضرت امیر حمزہ ؓ کے اخلاق میں سپاہیانہ خصائل نہایت نمایاں تھے،شجاعت جانبازی اوربہادری ان کے مخصوص اوصاف تھے،مزاج قدرۃ تیز وتند تھا،شراب حرام ہونے سے پہلے اس کے عادی تھے،ایک دفعہ ایک انصار کے میخانہ میں صحبت احباب گرم تھی اوردورساغر کے ساتھ ایک رقاصہ کی خوش الحان راگنیوں سے محفل کا رنگ جماہوا تھا،اسی حالت میں اس نے دواونٹوں کی طرف اشارہ کرکے جوسامنے بندے ہوئے تھے یہ مصرعہ پڑھا۔ الایاحمزۃ للشرف النواء حضرت حمزہ ؓ نشہ کی مدہوشی میں بے اختیار کودے اوردونوں کے جگر اورکوہان کاٹ لائے،یہ اونٹ حضرت علی ؓ کے تھے،انہوں نے یہ حال دیکھا تو آبدیدہ ہوکر دربارِ نبوت میں شکایت کی،آنحضرت ﷺ ان کو اورحضرت زید بن حارثہ کو ساتھ لیے ہوئے اس وقت اس محفل طرب میں تشریف لائے،اورحضرت حمزہ ؓ کو ملامت فرمانے لگے،لیکن یہاں ہوش وحواس پر نشہ کا قبضہ ہوچکاتھا، انہوں نے یک دفعہ سرسے پاؤں تک آنحضرت ﷺ کو گھور کر دیکھاورآنکھیں لال پیلی کرکے بولے"تم سب میرے باپ کے غلام ہو،آپ نے مدہوشی کی یہ کیفیت دیکھی تو الٹے پاؤں لوٹ آئے۔ (بخاری کتاب فرض الخمس) حضرت امیر حمزہ ؓ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اورتمام نیک کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے،چنانچہ شہادت کے بعدآنحضرت ﷺ نے ان کی لاش سے مخاطب ہوکر اس طرح ان محاسن کی داددی تھی۔ رحمۃ اللہ علیک فانک کنت ماعلمت وصولا للرحم فعولاللخیرات تم پر خدا کی رحمت ہو کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے تم قرابت داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے،نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ ازواج واولاد حضرت حمزہ ؓ نے متعدد شادیاں کیں،بیویوں کے نام یہ ہیں، بنت الملہ،خولہ بنت قیس،سلمی بنت عمیس، ان میں سے ہر ایک کے بطن سے اولاد ہوئی،لڑکوں کے نام یہ ہیں،ابویعلیٰ،عامر،عمارہ،آخرالذکر دونوں لاولد فوت ہوئے،ابویعلی سے چند اولادیں ہوئیں لیکن وہ سب بچپن ہی میں قضا کرگئیں،اس طرح حضرت حمزہ ؓ کا سلسلہ نسل شروع ہی میں منقطع ہوگیا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزثالث: ۷) سلمی بنت عمیس کے بطن سے امامہ نامی ایک لڑکی بھی تھی،فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مراجعت فرمائی تو بھائی بھائی کہہ کر اس نے پیچھا کیا،حضرت حمزہ ؓ کے رشتہ داروں میں سے حضرت علی ؓ، حضرت جعفر ؓ اورحضرت زید بن حارثہ ؓ نے ان کو اپنی اپنی تربیت میں لینے کا دعویٰ پیش کیا،لیکن آپ نے حضرت جعفر ؓ کے حق میں فیصلہ دیا؛ کیونکہ ان کی بیوی اسماء بنت عمیس امامہ کی حقیقی خالہ تھیں، حضرت علی ؓ نے آنحضرت ﷺ کو امامہ سے شادی کرلینے کی ترغیب دی تھی، لیکن آپ نے انکار کردیااورفرمایا حمزہ ؓ میرے رضاعی بھائی تھے۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :۷)