انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** علم الآثار کا درس ومذاکرات اس زمانے میں جب کہ علم کتابوں اور تحریروں میں مدون ہوگیا ہے،زبانی بات چیت کی سند ونقل بہت کم رہ گئی ہے؛لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ زبانی بات چیت کی اصولی حیثیت باقی نہیں رہی،یہ حقیقت ہے کہ بیان واقعات میں اولین درجہ زبانی بات کا ہی ہے؛ پھر ضرورت اور تقاضے کے مطابق اسے تحریر کا لباس پہنادیا جاتا ہے، تحریر بمقابلہ تقریر ثانوی حیثیت رکھتی ہے، کوئی صاحب علم انسان کی تعریف حیوان ناطق کے بجائے حیوان ادیب ہر گز پسند نہ کریں گے، علم میں جو پختگی آمنے سامنے کے درس وتدریس اور زبانی مذاکرات سے آتی ہے وہ تحریر کی راہ سے نہیں آتی، تحریر کی غلطی پر صاحب تحریر کو بعض اوقات برسوں تک پتہ نہیں چلتا۔ یہی وجہ ہے اس امت میں علم ہمیشہ انہی علماء کا پختہ سمجھا گیا جو علماء کے سامنے بیٹھ کر اور علماء کی مجلسوں میں شریک ہوکر اکتساب علم کرتے رہے ہیں، حیوان ادیب کتنا ہی بڑھ جائے حیوان ناطق کے برابر نہیں ہوسکتا، تحریر ہمیشہ دوسرے درجے کا علمی فائدہ بخشتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ تحریری نقوش میں تغیر وتبدل اور مغالطہ اس سرعت سے نہیں آتا جتنا زبانی بات چیت میں آسکتا ہے؛ لیکن اس مشکل کا حل تحقیق واقعات میں صدق ودیانت اور نقل وروایت کے ضابطوں کی پابندی ہے، نہ کہ زبانی بات کے اصولی وزن کو ہی گرادیا جائے اور حیوان ادیب کے گرد ڈیرے ڈال دیے جائیں، لٹریچر زبانی تعلیم وتعلم کے ساتھ ساتھ رہے اور معاون کے درجے میں رہے تواس سے بے شک ہزاروں فوائد حاصل ہوسکتے ہیں ۔ یاد رکھئے! کہ نقل واقعات میں سب سے اونچا درجہ شہادت کا ہے، جس سے عدالتیں فصل خصومات اور مقدموں کے فیصلے کرتی ہیں اور انسانی حقوق کے فیصلے کیے جاتے ہیں، وہاں اصولی حیثیت زبانی بیان کی ہوتی ہے کوئی تحریر پیش ہوتو اس پر بھی زبانی شہادت گزاری جاتی ہے، کسی عدالتی فیصلے میں صدر مملکت کا بیان بھی مطلوب ہو تو اسے بھی اصالۃ خود حاضر ہونا پڑتا ہے اور اس کی کوئی تحریر یا خط اس سلسلے میں کافی نہیں سمجھے جاتے،تحریر کا درجہ تاریخ انسانی میں تقریر سے ہمیشہ سے دوسرا رہا ہے۔