انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۳)نیاز صاحب فتحپوری ماہنامہ نگار کے مدیر نیاز فتحپوری بھی انکارِ حدیث میں نمایاں شخصیت تھے "من ویزداں" انہی کی تصنیف ہے، آپ انکارِ حدیث میں یہاں تک آگے نکلے کہ مسلمانوں کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار حدیث کوٹھہرایا؛ خود لکھتے ہیں: "اگرمولویوں کی جماعت واقعی مسلمان ہے تومیں یقینا کافر ہوں اور اگر میں مسلمان ہوں تویہ سب نامسلمان ہیں؛ کیونکہ ان کے نزدیک اسلام نام ہے صرف کورانہ تقلید کا اور تقلید بھی رسول واحکام رسول کی نہیں؛ بلکہ بخاری ومسلم ومالک وغیرہ کی اور میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی کیفیت یقین کی اس وقت تک پیدا ہی نہیں ہوسکتی جب تک ہرشخص اپنی جگہ غور کرکے کسی نتیجہ پر نہ پہنچے، قصہ مختصر یہ کہ اوّلین بیزاری اسلامی لٹریچر کی طرف سے مجھ میں احادیث نے پیدا کی"۔ (من یزداں:۱/۵۴۷) اس میں نیاز صاحب نے مقلدین ائمہ اربعہ کوہی نہیں کوسا بخاری ومسلم کے مقلدین جواہلِ حدیث کہلاتے ہیں، اُنہیں بھی مقلد ہی قرار دیا ہے، ائمہ رابعہ کے نہ سہی، بخاری ومسلم کے ہی سہی، نیاز صاحب لکھتے ہیں: "اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کے متعلق قرآن کے بتائے ہوئے تصورات، دوزخ وجنت، حشرونشر وغیرہ عقائد ان سب کا مفہوم میرے لیئے کچھ سے کچھ ہوگیا ہے؛ کیونکہ اب مجھے نہ صرف عقائد بلکہ خود مذاہب کا وجود بچوں کا کھیل نظر آنے لگا"۔ (من یزداں:۱/۵۴۹) اب دیکھئے حدیث میں شک کے کانٹے نکالنے والا قرآن مجید کے ساتھ کہاں تک وفادار رہا؟ اسے اس کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے: "کلامِ مجید کونہ میں کلامِ خداوندی سمجھتا ہوں اور نہ الہامِ ربانی؛ بلکہ ایک انسان کا کلام جانتا ہوں"۔ (من یزداں:۱/۴۰۵) قرآن کریم کے بارے میں یہ بداعتقادی کہاں سے پیدا ہوئی؟ انکارِ حدیث سے __________ اورحدیث سے انکار کی یہ جرأت کہاں سے پیدا ہوئی؟ ترکِ تقلید سے __________ معجزات کے بارے میں نیاز صاحب کا عقیدہ ملاحظہ کیجئے: "معجزے کبھی ظاہر ہی نہیں ہوئے؛ بلکہ یہ سب داستانیں ہیں، جوصدیوں بعد گھڑی گئیں"۔ (من یزداں:۱/۴۷۰)