انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنت کی حور حور کسے کہتے ہیں: حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حور اس کوکہتے ہیں جس کے دیدار سے آنکھ حیرت میں پڑجائے، اس کی پنڈلی کپڑوں کے پیچھے سے نظر آتی ہو، دیکھنے والا اپنے چہرہ کوان حوروں میں سے ہرایک کے جگر میں رقت جلد اور صفرائے رنگ کی وجہ سے آئینہ کی طرح دیکھے گا۔ (البدورالسافرہ:۲۰۰۲۔ تفسیر مجاہد:۲/۵۹۰) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَاجَانٌّo فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِo كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ۔ (الرحمن:۵۶،۵۷،۵۸) ترجمہ: ان (باغوں کے مکانات اور محلات) میں نیچی نگاہ والیاں (یعنی حوریں) ہوں گی کہ ان (جنتی) لوگوں سے پہلے ان پرنہ توکسی آدمی نے تصرف کیا ہوگا اور نہ کسی جن نے (یعنی بالکل محفوظ اور غیرمستعمل ہوں گی) سوائے جن وانس (باوجود اس کثرت وعظمت نعمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (اور رنگت اس قدر صاف وشفاف ہوگی کہ) گویا وہ یاقوت اور مرجان ہیں۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حور وہ ہے جس کی آنکھ کا (سفید حصہ) نہایت ہی سفید ہو اور سیاہ حصہ نہایت ہی سیاہ ہو۔ (تفسیر قرطبی:۱۶/۱۵۳) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں الْبَيَاضُ نِصْفُ الْحُسْنِ ترجمہ:گورا رنگ آدھا حسن ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۴/۱۴) حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب عورت کے حسین بالوں کے ساتھ اس کاگورا رنگ خوب نکھر جائے تواس کا حسن تمام ہوجاتا ہے۔ (بشریٰ المحبین:۴۳) حورعین کسے کہتے ہیں؟ علامہ ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حور حوراء کی جمع ہے اور حوراء اس عورت کوکہتے ہیں جوجوان ہوحسین وجمیل ہوگورے رنگ کی ہوسیاہ آنکھ والی ہو اور عین عیناء کی جمع ہے اور عیناء اس عورت کوکہتے ہیں جوعورتوں میں بڑی آنکھ والی ہو۔ (حادی الارواح:۲۸۵) چنانچہ حور، حوراء کی جمع ہے اور عین، عیناء کی جمع ہے اردو محاورہ میں لوگ حورعین کوواحد کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ غلطی عام ہورہی ہے؛ حالانکہ حورعین جمع ہے اور اس کی واحد حَوراء، عَیناء آتی ہے؛ لیکن کثرتِ استعمال میں اردو زبان میں حورعین واحد پربولتے ہیں ہم نے جگہ جگہ اس کتاب میں حورعین کا جمع کا معنی مدنظر رکھتے ہوئے جمع کا معنی ہی کیا ہے اور کہیں کہیں اردو محاورہ کی مجبوری کے پیشِ نظر حور کا لفظ واحد کے معنی میں بھی لائے ہیں۔ (امداد اللہ) حور کی پیدائش: ارشادِ خداوندی ہے: لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَاجَانٌّ (الرحمن:۵۶) ترجمہ: (ان جنتی لوگوں سے پہلے ان پرنہ توکسی آدمی نے تصرف کیا ہوگ اور نہ کسی جن نے) اس آیت کی تفسیر میں امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ عورتیں دنیا کے مردوں کی بیویاں بنیں گی اللہ تعالیٰ نے ان کوایک اور طریقہ سے پیدا کیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءًo فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًاo عُرُبًا أَتْرَابًا۔ (الواقعۃ:۳۵،۳۶،۳۷) ترجمہ:ہم نے ان عورتوں کوخاص طور پربنایا ہے یعنی ہم نے ان کوایسا بنایا کہ وہ کنواریاں ہیں (یعنی بعد مقاربت کے پھرکنواری ہوجائیں گی) محبوبہ ہیں (یعنی حرکات وشمائل وناز وانداز وحسن وجمال سب چیزیں ان کی دلکش ہیں اور اہلِ جنت کی ہم عمر ہیں)۔ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب سے ان کواس خاص انداز سے بنایا ہے ان کوکسی انسان اور جن نے چھوا تک نہیں۔ (سنن سعید بن منصور، بیہقی، بدورالسافرہ:۲۰۰۷) حورعین زعفران سے پیدا کی گئی ہیں: حدیث: حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خُلِقَ الْحُورُ الْعِينُ مِنَ الزَّعْفَرَانِ۔ (البدورالسافرہ:۲۰۱۶۔ طبرانی:۷۸۱۳) ترجمہ: (جنت کی) حورعین کوزعفران سے پیدا کیا گیا ہے۔ فائدہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایسے ہی مروی ہے۔ حضرت زید بن اسلم (تابعی مفسر رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حورعین کومٹی سے پیدا نہیں کیا؛ بلکہ ان کوکستوری کافور اور زعفران سے پیدا کیا ہے۔ (البدورالسافرہ:۲۰۱۸، باحوالہ ابن المبارک) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابسلمہ بن عبدالرحمٰن (تابعی رحمہ اللہ) اور حضر مجاہد رحمہ اللہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دوست کے لیے ایسی بیوی ہے جس کوآدم وحواء (انسان) نے نہیں جنا؛ بلکہ اس کوزعفران سے پیدا کیا گیا ہے (یعنی وہ جنت میں تخلیق کی گئی ہے، ماں باپ کے واسطے سے پیدا نہیں ہوئی)۔ (حادی الارواح:۳۰۳) حوروں کوپیدا کرکے ان پرخیمے قائم کردئے جاتے ہیں: حضرت ابن ابی الحواری فرماتے ہیں کہ حورعین کومحض قدرتِ خداوندی سے (کلمہ کن سے) پیدا کیا گیا ہے، جب ان کی تخلیق پوری ہوجاتی ہے توفرشتے ان پرخیمے نصب کردیتے ہیں۔ (حادی الارواح:۳۰۵۔ صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۳۱۱) جنت کے گلاب سے پیدا ہونے والی حوریں: حضرت زباح قیسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ سے سنا آپ نے فرمایا: جنات النعیم جنات الفردوس اور جنات عدن کے درمیان واقع ہیں ان میں ایسی حوریں ہیں جوجنت کے گلاب سے پیدا کی گئی ہیں، ان سے پوچھا گیا ان (جنات النعیم) میں کون داخل ہوگا؟ فرمایا: وہ حضرات جوگناہ کا (جان بوجھ کرپختہ) ارادہ نہیں کرتے جب وہ میری عظمت کویاد کرتے ہیں تومجھے اپنے سامنے پاتے ہیں اور وہ لوگ جومیرے خوف وخشیت میں پروان چڑھتے ہیں (وہ بھی ان جنات النعیم میں داخل ہوں گے)۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۳۴۸) حوروں کے گلاب سے پیدا ہونے پریہ شعر کچھ حسب حال ہے ؎ ناز کی ان لبوں کی کیا کہئے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے مشک، عنبر، کافور اور نور سے پیدائش: حدیث: سرکارِدوعالم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حورعین کے متعلق سوال کیا گیا کہ ان کوکس چیز سے پیدا کیا گیا توآپ نے ارشاد فرمایا: من ثلاثة أشياء: أسفلهن من المسك وأوسطهن من العنبر وأعلاهن من الكافور وشعورهن وحواجبهن سواد خط من نور۔ (تذکرۃ القرطبی:۲/۴۸، بحوالہ ترمذی) ترجمہ:تین چیزوں سے پیدا کی گئی ہیں، ان کا نچلا حصہ مشک (کستوری) کا ہے اور درمیانہ حصہ عنبر کا ہے اور اوپر کا حصہ کافور کا ہے، ان کے بال اور ابرو سیاہ ہیں نور سے ان کا خط کھینچا گیا ہے۔ حور کی تخلیق کے مراحل: حدیث: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی کہ آپ نے ارشاد فرمایا: سألت جبريل عليه السلام فقلت: أخبرني كيف يخلق الله الحور العين؟ فقال لي يامحمد: يخلقهن الله من قضبان العنبر والزعفران مضروبات عليهن الخيام أول مايخلق الله منهن نهدا من مسك أذفر أبيض عليه يلتام البدن۔ (تذکرۃ القرطبی:۲/۴۸۱، بحوالہ ترمذی) ترجمہ:میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا اور کہا کہ مجھے بتاؤ اللہ تعالیٰ حورعین کوکس طرح سے تخلیق فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اے محمد! اللہ تعالیٰ ان کوعنبر اور زعفران کی شاخوں سے پیدا فرماتے ہیں؛ پھران کے اوپرخیمے نصب کردیئے جاتے یں، سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ان کے پستانوں کوخوشبودار گورے رنگ کی کستوری سے پیدا کرتے ہیں اسی پرباقی بدن کی تعمیر کرتے ہیں۔ حور کے بدن کے مختلف حصے کس کس چیز سے بنائے گئے ہیں؟ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حورعین کوپاؤں کی انگلیوں سے اس کے گھٹنے تک زعفران سے بنایا ہے اور اس کے گھٹنوں سے اس کے سینے تک کستوری کی خوشبو سے بنایا ہے اور اس کے سینہ سے گردن تک شعلہ کی طرح چمکنے والے عنبر سے بنایا اور اس کی گردن سے سرتک سفید کافور سے تخلیق کیا ہے، اس کے اوپر گل لالہ کی ستر ہزار پوشاکیں پہنائی گئی ہیں، جب وہ سامنے آتی ہے اس کا چہرہ زبردست نور سے ایسے چمک اُٹھتا ہے جیسے دنیاوالوں کے لیے سورج اور جب سامنے آتی ہے تواس کے پیٹ کا اندرونی حصہ لباس اور جلد کی باریکی کی وجہ سے دکھائی دیتا ہے، اس کے سرمیں خوشبودار کستوری کے بالوں کی چوٹیاں ہیں، ہرایک چوٹی کواٹھانے کے لیے ایک خدمتگار جواس کے کنارے کواٹھانے والی ہوگی یہ حور کہتی ہوگی یہ انعام ہے اولیاء کا اور ثواب ہے ان اعمال کا جوبجالاتے تھے۔ (تذکرۃ القرطبی:۲/۴۸۱، بحوالہ ترمذی) قطرات رحمت سے پیدا ہونے والی حوریں: حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ۔ (الرحمن:۷۲) حوریں ہیں خیموں میں رکی رہنے والی، اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابوالاحوص رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ ایک بدلی نے عرش سے بارش برسائی توان کے قطرات رحمت سے ان کوپیدا کیا گیا؛ پھران میں سے ہرایک پرنہر کے کنارے ایک خیمہ نصب کردیا گیا، اس خیمے کی چوڑائی چالیس میل ہے، اس کا کوئی دروازہ نہیں ہے، جب اللہ تعالیٰ کا دوست (اس کے پاس) خیمہ میں جانا چاہے گا تواس خیمہ کوراستہ ہوجائے گا؛ تاکہ ولی اللہ کواس بات کا علم ہوجائے کہ فرشتوں اور خدمتگاروں کی مخلوقات کی نگاہوں نے اس حور کونہیں دیکھا، حوریں ایسی ہیں جومخلوقات کی نگاہوں سے بالکل اوجھل ہیں۔ (صفۃ الجنۃ امام ابن کثیر:۱۰۲) لڑکیاں اگانے والی نہر بیدخ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک نہر جس کا نام بیدخ ہے اس پریاقوت کے قبے ہیں جن کے نیچے لڑکیاں اگتی اور خوبصورت آواز میں قرآن پڑھتی ہیں جنتی آپس میں کہیں گے ہمارے ساتھ بیدخ کی طرف چلو؛ چنانچہ وہ آئیں گے اور لڑکیوں سے مصافحہ کریں گے جب کوئی لڑکی کسی مرد کوپسند آئیگی تووہ اس کی کلائی کو چھولے گا تووہ لڑکی اس کے پیچھے چل پڑے گی اور اس کی جگہ دوسری لڑکی اُگ آئیگی۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۶۹) شمر بن عطیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنت میں کچھ نہریں ایسی ہیں جولڑکیاں اگاتی ہیں یہ لڑکیاں مختلف آوازوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرتی ہیں کہ ویسی خوبصورت آوازیں کانوں نے کبھی نہیں سنیں وہ کہتی ہیں۔ (زہد امام احمد، کتاب المدیح دارقطنی، البدورالسافرہ:۱۹۲۴) نحن الخالدات فلانموت ونحن الکاسیات فلانعری ونحن الناعمات فلانجوع ونحن الناعمات فلانباس ترجمہ: (۱)ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں کبھی نہیں مریں گی، ہم لباس پہننے والیا ں ہیں کبھی بے لباس نہ ہوں گی (۲)ہم ہمیشہ نعمتوں میں پلنے والیاں ہیں کبھی بھوکی نہ ہوں گی اور ہم ہمیشہ نعمتوں میں رہنے والیاں ہیں کبھی رنج وتکلیف میں نہ جائیں گی۔ فائدہ: شہداء کوجب اس نہر میں غوطہ دیا جائے گا تویہ اچھی طرح سے صاف ستھرے ہوکر چودھویں کے چاند کی طرح چمکتے ہوئے نظر آئیں گے، تفصیل کے لیے اس کتاب کا مضمون کھانے پینے کے برتن کو ملاحظہ فرمائیں۔ حوروں کی عمر: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ۔ (ص:۵۲) ترجمہ:اور ان کے پاس نیچی نگاہ والی ہم سن (حوریں) ہوں گی۔ حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ ان سے مراد جنت کی حوریں ہیں اور ہم سن کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ سب آپس میں ہم عمر ہوں گی اور یہ بھی کہ وہ اپنے شوہروں کے ساتھ عمر میں مساوی ہوں گی پہلی صورت میں ان کے ہم عمر ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ ان کے درمیان آپس میں محبت، انس اور دوستی کا تعلق ہوگا، سوکنوں کا سابغض اور نفرت نہیں ہوگی اور ظاہر ہے کہ یہ چیز شوہروں کے لیے انتہائی راحت کا سبب ہے اور دوسری صورت میں جب کہ ہم عمرکا مطلب یہ لیا جائے کہ وہ اپنا شوہروں کی ہم عمر ہوں گی اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب کہ ہم عمری کی وجہ سے طبیعتوں میں زیادہ مناسبت اور توافق ہوگا اور ایک دوسرے کی راحت ودلچسپی کا خیال زیادہ رکھا جاسکے گا؛ اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زوجین کے درمیان عمر میں تناسب کی رعایت رکھنی چاہئے؛ کیونکہ اس سے باہمی انس پیدا ہوتا ہے اور رشتہ نکاح زیادہ خوشگوار اور پائدار ہوجاتا ہے۔ (تفسیر معارف القرآن:۷/۵۲۷) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر محدثین فرماتے ہیں کہ جنتی حوریں ایک ہی عمر کی تینتیس سال کے برابر ہوں گی۔ (حادی الارواح:۲۸۸) حوروں کی اور دنیا کی عورتوں کی سب کی عمر جنت میں ۳۳/سال ہوگی۔ بڑھیا جوان ہوکر جنت میں جائے گی: حدیث: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ میرے پاس تشریف لائے اس وقت میرے پاس ایک بڑھیا بیٹھی تھی، آپ نے سوال فرمایا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا: میری خالاؤں میں سے ایک ہے، توآپ نے ارشاد فرمایا یہ بات یادرکھو کہ جنت میں بڑھیا داخل نہ ہوگی، یہ ارشاد سن کر بڑھیا کے جوخدا نے چاہا غم اور پریشانی لاحق ہوئی ہوگئی؛ پھرآپ نے ارشاد فرمایا (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ) ہم ان کوایک دوسری شکل میں (یعنی جوان شکل میں قبروں سے) اُٹھائیں گے۔ (بیہقی فی البعث والنشور:۳۷۹۔ درمنثور:۶/۱۵۸، بحوالہ شعب الایمان بیہقی۔ البدورالسافرہ:۲۰۰۸) حدیث: حضر ت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: أَنْتَ عَجُوْزَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَارَسُوْلُ اللهِ ادعُ الله أن يدخلني الجنة، فقال: يَاأم فُلانٍ، ان الجنَّةُ لاتدخُلهَا عَجُوزٌ، قال: فولَّت تبكي، فقال: أخْبرُوهَا أنَّهَا لاتدخُلهَا وهيَ عجُوزٌ، إنَّ الله تعالى يقُولُ: (إِنَّآأَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَآءً فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَاراً)۔ (شمائل ترمذی:۲/۳۸، مع جمع الواسائل شرح الشمائل۔ مجمع الزوائد:۱۰/۴۱۹) ترجمہ:ایک بڑھیا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعاء فرمائیں کہ وہ مجھے جنت میں داخل کرے، آپ نے فرمایا: اے فلاں کی ماں جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہیں ہوگی (حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ (یہ جواب سن کربڑھیا) مونہہ پھیرکرجاتے ہوئے رونے لگی توآپ نے ارشاد فرمایا اس کوبتادو کہ اس میں کوئی عورت بڑھیا ہونے کی حالت میں جنت میں داخل نہیں ہوگی، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم ان کی دوسری طرح کی تخلیق کریں گے اور ان کوکنواریاں بنادیں گے۔ فائدہ: یہ احادیث صرف اسی عورت کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں؛ بلکہ اسی طرح سے جنت میں داخل ہونے والے بوڑھے حضرات بھی جوان ہوکر جنت میں داخل ہوں گے، کوئی بوڑھا یاکمسن نہ ہوگا تفصیل کے لیے اسی کتاب میں مردوں کی عمر کے باب کوملاحظہ فرمائیں۔ نوخواستہ عورتیں: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًاo حَدَائِقَ وَأَعْنَابًاo وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا۔ (النبا:۳۲،۳۳،۳۴) ترجمہ:خدا سے ڈرنے والوں کے لیے بے شک کامیابی ہے یعنی (کھانے اور سیر کرنے کو) باغ (جن میں طرح طرح کے میوے ہوں گے) اور انگور اور (دل بہلانے کو) نوخواستہ ہم عمر عورتیں ہوں گی۔ لفظی تحقیق: کواعب کاعب کی جمع ہے اور کاعب ابھری ہوئی چھاتیوں والی عورت کوکہتے ہیں مراد اس سے یہ ہے کہ ان کی چھاتیاں انار کی طرح ہوں گی لٹکی ہوئی نہیں ہوں گی۔ (حادی الارواح:۲۹۵) شرم وحیا اور اپنے خاوندوں سے محبت: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَاجَانٌّo فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ۔ (الرحمن:۵۶،۵۷) ترجمہ: ان میں عورتیں ہیں نیچی نگاہ والی، نہیں قربت کی ان سے کسی آدمی نے ان (جنتیوں) سے پہلے اور نہ کسی جن نے؛ پھرائے جن وانس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے۔ وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ۔ (الصافات:۴۸) ترجمہ:اور ان کے پاس نیچی نگاہ والی بڑی آنکھوں و الی (حوریں) ہوں گی۔ اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ جن شوہروں کے ساتھ ان کا ازدواجی رشتہ اللہ تعالیٰ نے قائم کردیا وہ ان کے علاوہ کسی بھی مرد کوآنکھ اُٹھا کرنہیں دیکھیں گی۔ علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ یہ عورتیں اپنے شوہروں سے کہیں گی میرے پروردگار کی عزت کی قسم! جنت میں مجھے تم سے بہتر کوئی نظر نہیں آتا جس اللہ نے مجھے تمہاری بیوی اور تمھیں میرا شوہر بنایا تمام تعریفیں اسی کی ہیں۔ نگاہیں نیچی رکھنے والی کا ایک اور مطلب علامہ ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی نگاہیں نیچی رکھیں گی یعنی وہ خود اتنی خوبصورت اور وفاشعار ہوں گی کہ ان شوہروں کوکسی اور کی طرف نظر اُٹھانے کی خواہش ہی نہ ہوگی۔ (تفسیرزادالمیسر:۸/۵۷،۵۸) شوہروں کی عاشق اور من پسند محبوبائیں: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں عُرُبًا أَتْرَابًا۔ (الواقعۃ:۳۷) ترجمہ: (بیویاں ہوں گی) پیار لانے والیاں ہم عمر۔ فائدہ: عرب، عروبہ کی جمع ہے، عروبہ اس عورت کوکہتے ہیں جواپنے شوہر کی عاشق اور اس کی من پسند محبوبہ ہو، حسین ہوناز ونخرہ والی ہو، البیلی ہورنگیلی ہو، خوش وضع ہو، چنچل ہو، شوخ نظر ہو، معشوقانہ انداز ہو، پیار لانے والی ہو، شہوت پرست ہو؛ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جنت کی عورتوں کی حسن صورت کے ساتھ حسن عشرت کوبھی جمع فرمایا ہے اور یہی بیویوں سے غایت مطلوب ہے اور اسی کے ساتھ ان سے مرد کی لذت زندگی کی تکمیل ہوتی ہے۔ (حادی الارواح:۲۹۴، بزیادہ) چلے گئے ہیں ادائیں دکھا کے پردے میں شرارتیں بھی ہیں شرم وحیا کے پردے میں جنات اور انسان سے محفوظ حوریں اور عورتیں: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَاجَانٌّ۔ (الرحمن:۵۶) ترجمہ: نہیں قربت کی ان سے کسی آدمی نے ان (جنتیوں) سے پہلے اور نہ کسی جن نے۔ فائدہ: کنواری لڑکی سے مباشرت کوعربی میں طمث کے لفظ سے پہلے تعبیرکیا جاتا ہے اس جگہ یہی معنی مراد ہیں اور اس میں جواس کی نفی کی گئی ہے کہ جن اہلِ جنت کے لیے یہ حوریں مقرر ہیں ان سے پہلے ان کوکسی انسان یاجن نے مس نہیں کیا ہوگا، اس کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ جوحوریں انسانوں کے لیے مقرر ہیں ان کوکسی انسان نے اور جومؤمنین جنات کے لیے مقرر ہیں ان کوکسی جن نے ان سے پہلے مس نہیں کیا ہوگا اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جیسے دنیامیں انسانی عورتوں پرکبھی جنات بھی مسلط ہوجاتے ہیں وہاں اس کا بھی کوئی امکان نہیں ہوگا۔ (تفسیر معارف القرآن:۸/۲۶۱) حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ بن حنبل فرماتے ہیں (قیامت کے) صور پھونکنے کے وقت یہ حورعین فوت نہیں ہونگی کیونکہ یہ زندہ رہنے کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ اس آیتِ مبارکہ میں اکثر علماء کے اس موقف کی تائید ہورہی ہے کہ مؤمن جنات جنت میں جائیں گے جیسا کہ کافر جنات دوزخ میں جائیں گے، حضرت ضمرہ بن حبیب رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ کیا جنات کوبھی ثواب (یعنی جنت) ملے گا؟ توآپ نے فرمایا: ہاں! پھرانہوں نے یہ آیت مذکورہ تلاوت کی اور فرمایا انسانوں کے لیے انسان عورتیں ہوں گی اور جنات کے لیے جن عورتیں، حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب کوئی مرد مباشرت کرتا ہے اور (شروع میں) بسم اللہ نہیں پڑھتا، جن اس کے آلہ کے سرکولپٹ جاتا ہے اور اس کے ساتھ مباشرت میں شریک ہوجاتا ہے۔ (حادی الارواح:۲۸۹) جنتی عورتوں کوجن وانس کے نہ چھونے کی ایک اور تفسیر: آیت قرآنی لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَاجَانٌّ (الرحمن:۵۶) کی تفسیر میں حضرت امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ دنیا کی عورتیں ہیں جن کواللہ تعالیٰ نے دوسری بار (جنت کے لیے موزوں کرکے) انشاء کیا ہوگا جیسا کہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہم ان کونئے سرے سے تخلیق کریں گے اور ان کوکنواریاں اورشوہروں کی عاشق بنادیں گے، جب سے ان کی عدن میں دوسری تخلیق کی جائے گی توان کے خاوندوں سے پہلے ان پرکسی جن یاانسان نے تصرف نہیں کیا ہوگا۔ (البعث والنشور:۳۷۸)